پنجابی اسٹیج شوز: گھسی پٹی روایات میں دفن خزانے

05 جنوری 2015
گھسی پٹی چیزوں کی تہوں کو بتدریج اٹھایا جائے تو آپ کے ہاتھ میں ایسی کامیڈیز آئیں گی جنھوں نے بے مثال تفریح فراہم کیں— اسکرین گریب
گھسی پٹی چیزوں کی تہوں کو بتدریج اٹھایا جائے تو آپ کے ہاتھ میں ایسی کامیڈیز آئیں گی جنھوں نے بے مثال تفریح فراہم کیں— اسکرین گریب

ہر ثقافت کے اپنے لیجنڈز ہوتے ہیں، اپنے کام کا ایسا منظم جسم جو اپنے اندر موجود جنئیس کا احترام کرتا ہے۔

یہ اعزاز ہمیشہ آسانی سے نہیں ملتا۔ کئی بار اس کے لیے کافی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔

آپ سوچیں گے کہ آخر کیوں کوئی شخص اسٹیج شو کامیڈی کو لیجنڈ قرار دے رہا ہے تاہم اگر آپ جانتے ہوں کہ کس طرح پتھر کا ایک ڈھیلا سونے میں تبدیل ہوجاتا ہے تو آپ سمجھ جائیں گے کہ میں کیا کہنے کی کوشش کررہا ہوں۔

بازاری پن، گھٹیا زبان، گھسی پٹی چیزوں کی تہوں کو بتدریج اٹھایا جائے تو آپ کے ہاتھ میں متعدد تہوں والی کامیڈیز آئیں گے جنہوں نے بے مثال تفریحی اقدار فراہم کیں۔

تو سوال یہ ہے کہ آخر پنجابی اسٹیج شوز کو کیوں ملک کے بڑے اثاثوں میں سے ایک نہیں سمجھا جاتا؟

گھٹیا پروڈکشن نے حقیقی قدر چھپالی

انداز اپنا اپنا کا اسکرین شاٹ
انداز اپنا اپنا کا اسکرین شاٹ

اس سوال کا یقینی جواب تو اوپر دیا جاچکا ہے جیسے ناگوار تناظر، بازاری پن وغیرہ، اگرچہ کچھ لوگوں نے سخت محنت کرکے خود کو اس سے دور رکھا ہے۔

یہاں تک کہ پروڈکشن نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس فارمیٹ پر کوئی کنٹرول نہیں، کوئی حقیقی گہرائی نہیں، اس لیے یہ کاغذ کی پتلی دیواروں کی طرح یہ ذرا سی تیز ہوا سے بکھر جاتا ہے، ایسے بیکار کردار جنھیں پلاٹ کو متاثر کیے بغیر بدلا جاسکتا ہے اور سب سے عام حقیقی صلاحیت کو سراہا نہ جانا جو کہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

مگر یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ یہ شوز مخصوص حلقوں میں اب بھی وسیع پیمانے پر پسند کیے جاتے ہیں، اور آہستہ آہستہ میڈیا کے دیگر حصوں تک پھیل رہے ہیں۔

اس کا آغاز پیسے دینے والے خریداروں سے ہوا۔ پنجابی اسٹیج شوز ایسی آبادی کے لیے پرکشش ہیں، جو سائز میں تو بڑی ہے، لیکن پھر بھی میڈیا کی توجہ سے دور ہے۔

مگر یہی آبادی وہ ہے جو مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، پاکستان کے حقیقی عوام، جو پالیسیوں اور سیلاب کے سب سے پہلے ہدف بنتے ہیں۔

ان تھکے ہارے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اسٹیج شوز کے اداکار ملک کی مختلف ثقافتوں پر حیرت انگیز و پرذہانت تبصرے کرتے ہیں، جس سے مجموعی طور پر ان کی پیشکش کی چمک دمک بڑھ جاتی ہے اور آڈیٹوریم بمشکل ہی خالی نظر آتے ہیں۔

اسٹیج شو کے اداکار نہ صرف پرفارمنس دیکھنے والوں کی ضروریات کو سمجھتے ہیں، بلکہ وہ متعدد موضوعات جیسے جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات اور عمرانیات وغیرہ کا زبردست علم بھی رکھتے ہیں، اور ضرورت کے وقت اس کا بخوبی استعمال بھی کرتے ہیں۔

دو کرداروں کی ایک دوسرے سے ایک ایک جملے پر مشتمل گفتگو سننے سے عام پاکستانی کی روزمرہ کی زندگی کے اندرونی پہلو کو دیکھنے کا قابل قدر موقع ملتا ہے۔

پنجابی اسٹیج ڈراموں کے ثقافتی اثرات آج کی انٹرٹینمنٹ میں محسوس کیے جاسکتے ہیں، مثال کے طور پرٹی وی ریٹنگز پر چھائے پروگرامز جیسے حسب حال، خبرناک یا مذاق رات اسی درخت کی شاخیں ہیں۔

آپ ان شوز کو پسند کریں یا نہ کریں مگر آپ عوام میں ان کی مقبولیت سے انکار نہیں کرسکتے، ہمارے فنکار ان شوز کو دنیا بھر میں لے گئے ہیں جہاں ان کے متعدد پرستار بھی ہیں۔

سماجی بصیرت اور شعور پر مشتمل مواد

عرفان کھوسٹ دیگر اداکاروں کے ساتھ ڈرامہ ہکے بکے میں
عرفان کھوسٹ دیگر اداکاروں کے ساتھ ڈرامہ ہکے بکے میں

اور یہ بزلہ سنجی پر مشتمل مختصر جملوں سے بھی آگے جاچکے ہیں۔

ایک دفعہ ایسا ڈرامہ پیش کیا گیا جس میں دو نابینا بھائیوں کی کہانی بیان کی تھی جو بھیگ مانگنے پر مجبور تھے (تاکہ ان کا خاندان اچھی زندگی گزار سکے) اور ایسی لڑکی میں انہیں دلچسپی ہوتی ہے جسے وہ یقیناً کبھی پا نہیں سکتے۔

یہ مزاح دیانتدارانہ عکاسی اور حقیقی جذبات پر مشتمل تھا جس نے اس مسئلے کے ہلکے پھلکے اور تاریک دونوں پہلوﺅں کو بیان کیا، ایک بامقصد اور گہرائی میں جاکر لکھی گئی کہانی کسی کی بھی آنکھوں میں آنسو لانے کے لیے کافی تھی۔

مگر ان فنکاروں نے اس تاریک موضوع کو جس انداز سے پیش کیا وہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور سائنسی توازن بھی برقرار رکھا تھا، آخر میں دیکھنے والے اس اہم سماجی مسئلے کے حوالے سے آگاہ، اور اس پر توجہ دینے پر مجبور ہوجاتے تھے۔

پنجابی اسٹیج شوز کے فنکاروں نے مرکزی میڈیا میں جگہ بنانے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں۔

اس کا آغاز معروف فلموں کی پیروڈی سے ہوا، ایسا فارمیٹ جو توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد مقبول فلموں کا زندہ دل آوازوں کے ساتھ وائس اوور کیا، جس کی مقبول ترین مثال شنگھائی نائٹس ہے جسے بٹ تے بھٹی کے نام سے ری برانڈ کیا گیا۔

کاپی رائٹ کے مسائل اور اخلاقیات اس اقدام کے پیچھے سوالیہ نشان ہے تاہم ان تجربات کے ذریعے ہمیں کافی پرتفریح مواد ملا جس سے ڈبنگ فلموں کا کلچر چل نکلا اور متعدد فلموں اور ڈاکومینٹریز کو ہمارے لیے ہضم کرنا آسان ہوگیا۔

صلاحیت پالش ہونے کی منتظر

ہکے بکے
ہکے بکے

خلاصہ یہ ہے کہ پنجابی اسٹیج کامیڈیز میں ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، صلاحیت کا خزانہ اور مخلص پرستاروں بڑھ رہا ہے۔

بس اب انتظار ایک مثالی فارمیٹ کا ہے۔

مثال کے طور پر برطانوی کامیڈینز نے ایسا فارمیٹ بنایا ہے جو مکمل طور کوئز شوز کی طرز پر ہے، کیونکہ انہوں نے اس فارمیٹ کو ہی اپنی ذہانت اور ہنر کے اظہار کے لیے بہتر طریقہ سمجھا۔

ہمیں بھی اپنی اس صلاحیت کو تلاش کرنا ہے یا شاید تلاش کرچکے ہیں اور محض انہیں پالش کرنے کی ضرورت ہے۔

میں اختتام ان الفاظ پر کروں گا کہ ناقص پیشکش پراڈکٹ سے نفرت کی وجہ نہیں بننی چاہیے (کم از کم تمام کیسز میں تو نہیں)۔ اگر اسٹیج ڈراموں کے فارمیٹ میں فحش سوچ کو کم کیا جائے، بھنویں اچکانے پر مجبور کر دینے والے مواد اور صاف پروڈکشن اقدار کا خیال رکھا جائے تو ہم عالمی ستائش کے غیرمعمولی لیول تک پہنچ سکتے ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ ایسا ابھی بھی ممکن ہے، بری خبر یہ ہے کہ اس حل پر راتوں رات عمل نہیں ہوسکتا، ہمیں اس صنعت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، اس کا معیار بڑھانے میں مدد اس طرح کی جائے کہ اس کے پرستار متاثر نہ ہوں۔

ایک بار جب ہم اس مقصد کو حاصل کرلیں گے تو مزاح عالمی میڈیا کی معیشت میں ہماری کرنسی بن جائے گا اور یہ ایسا مستقبل ہے جس کے لیے جدوجہد قابلِ قدر ثابت ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں