اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ (شرح سود) کو مسلسل ساتویں بار 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اہم مثبت حقیقی شرح سود کے ساتھ موجودہ مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے تاکہ ستمبر 2025 تک مہنگائی کی شرح کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف تک کم کیا جائے۔’

اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے مانیٹری پالیس کمیٹی نے نوٹ کیا کہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں ’لچکدار عالمی شرح نمو‘ کے ساتھ نیچے آ گئیں، جب کہ حالیہ جغرافیائی سیاسی واقعات نے بھی ان کے بارے میں بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ کیا اور بجٹ سے متعلق آنے والے اقدامات کے بھی مہنگائی کی صورتحال پر اثر ات ہوسکتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کمیٹی کے مطابق مہنگائی کی شرح اب بھی بلند ہے‘۔

ایک مثبت نوٹ پر مانیٹری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ’میکرو اکنامک استحکام کے اقدامات معتدل معاشی بحالی کے درمیان مہنگائی اور بیرونی پوزیشن دونوں کی بہتری میں خاطر خواہ حصہ ڈال رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری روز اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی دیکھی گئی تھی جب کہ مارکیٹ تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں شرح سود میں متوقع کمی بازار کے حصص کو اوپر لے جارہی ہے اور امید ہے کی جارہی ہے کہ شرح سود کم ہوئی تو اگلے ہفتے بازار حصص 75 ہزار پوانٹس کو بھی عبور کرسکتی ہے۔

چیس سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ یوسف ایم فاروق نے بتایا تھا کہ مارکیٹ میں تیزی کی وجہ مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں متوقع کمی ہے۔

گزشتہ ہفتے ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سروے میں 51 فیصد شرکا نے توقع ظاہر کی تھی کہ پالیسی ریٹ میں تبدیلی نہیں ہوگی اور شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھی جائے گی، جبکہ باقی 49 فیصد نے پالیسی ریٹ میں کمی کا امکان ظاہر کیا تھا۔

یوسف ایم فاروق نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رواں ہفتے قلیل مدتی مہنگائی 1.1 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ زیادہ تر ماہرین افراط زر 17 سے 18 فیصد کے درمیان رہنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کم شرح سود کے نتیجے میں اسٹاک کی قیمتیں زیادہ ہوں گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ شرح سود کر بر قرار رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ اس فیصلے تک پہنچنے کے حوالے سے کمیٹی نے نوٹ کیا کہ گزشتہ توقعات کے مطابق مہنگائی مالی سال 2024 کی دوسری ششماہی میں واضح طور پر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔

تاہم کمیٹی نے نوٹ کیا کہ فروری میں تیزی سے کمی کے باوجود مہنگائی کی سطح بلند ہے اور اس کا منظرنامہ مہنگائی کی بلند توقعات کی بنا پر خطرات کی زد میں ہے، اس بنا پر محتاط طرز عمل درکار ہے اور ستمبر 2025 تک مہنگائی کو 5 سے7 فیصد کی حدود میں لانے کے لیے موجودہ زری پالیسی مؤقف قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ تجزیہ بھی بدستور ہدفی مالیاتی یکجائی (fiscal consolidation) اور منصوبے کے مطابق بیرونی رقوم کی بروقت آمد سے مشروط ہے۔

زری پالیسی کمیٹی نے یہ بات نوٹ کی کہ کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے بعد سے ہونے والی کچھ اہم پیش رفتوں کے میکرواکنامک منظرنامے کے لیے مضمرات ہیں۔

اول، تازہ ترین اعداد و شمار زرعی پیداوار کی بحالی کی بدولت معاشی سرگرمی میں مسلسل معتدل اضافے کے عکاس ہیں، دوم، بیرونی جاری کھاتے کا توازن توقع سے زیادہ بہتر ثابت ہو رہا ہے، جس سے مالی رقوم کی کمزور آمد کے باوجود زرمبادلہ کے بفرز کو برقرار رکھنے میں مدد ملی ہے۔ سوم، دسمبر سے کاروباری اداروں کی مہنگائی کی توقعات نے بتدریج اضافے کو ظاہر کیا ہے، جبکہ مارچ میں صارفین کی توقعات بھی بڑھی ہیں۔ آخر میں، عالمی محاذ پر اگرچہ اجناس کی قیمتوں کا وسیع تر رجحان خوش آئند رہا ہے، تاہم تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کا ایک جزوی سبب بحیرۂ احمر میں جاری کشیدگی ہے۔

زری پالیسی کمیٹی کا تجزیہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مالی سال 2024 کے لیے پیش گوئی یعنی جی ڈی پی کے 0.5 سے 1.5 فیصد کی نچلی سطح کے قریب قریب رہنے کا امکان ہے، جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مدد ملے گی۔

زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ بحیثیت مجموعی میکرو اکنامک مضبوطی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے مالیاتی یکجائی جاری رکھنا لازمی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں