متھیرا، دیپیکا اور دیسی سماج کا دوغلا پن

26 ستمبر 2014
پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا نے یہ ثابت کردیا ہے، کہ یہ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینے سے رکنے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا نے یہ ثابت کردیا ہے، کہ یہ کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینے سے رکنے کو تیار نہیں ہیں۔

اپنے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس سے میں نے جب بھی جنسی تعصب اور تفریق (Gender Discrimination) کے بارے میں بات کی ہے، تو سب سے زیادہ اخلاقی چھان بین (Moral Policing) کی بات اٹھائی جاتی ہے۔

میرے بہت سارے مرد شاگرد اور دوست اس سوال کو الٹ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ دیکھیں مردوں کو بھی جنسی تعصب اور تفریق کا سامنا ہوتا ہے، یا جنسی تعصب اور تفریق سے بھی زیادہ مسائل موجود ہیں۔

یہ دونوں ہی باتیں ظاہر ہے کہ درست ہیں، اور لیکن جس تناظر میں کہی جاتی ہیں، اس تناظر میں مضحکہ خیز بھی لگتی ہیں۔ یہ کہنا، کہ مرد بھی جنسی تعصب کا شکار ہوتے ہیں، صرف معاملے سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جنسی تعصب کا نشانہ بننے والوں کا تناسب شامل نہیں کیا جاتا۔

کچھ لوگ اس بات سے اختلاف کریں گے، کہ مرد بھی جنسی تعصب اور ہراساں کیے جانے کے نشانہ بنتے ہیں، اور جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے، جو اس بارے میں مردوں اور عورتوں کا تناسب برابر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔

اور یہ کہنا، کہ اس سے بھی زیادہ بڑے مسئلے ہیں، درست ہے۔ ہاں، دہشت گردی مسئلہ ہے، لینڈ ریفارمز مسئلہ ہیں، تعلیمی پالیسی اور نام نہاد انقلاب مسئلہ ہیں۔ لیکن اس وقت ان مسائل کی بات نہیں ہورہی۔

ایک معاشرے، ایک سماج کے طور پر ہمیں تلخ حقائق کو نظر انداز کرنے کا ایک بہت اچھا طریقہ آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس سے بھی زیادہ تلخ حقائق کی طرف اشارہ کر دیا جائے، یا کہا جائے کہ دوسرے ممالک میں بھی یہ مسئلہ ہے اور اس سے زیادہ شدید ہے، جس سے ظاہری تاثر یہ ملتا ہے کہ اگر وہاں یہ مسائل ہیں، تو ہمارے پاس ان مسائل کا ہونا جائز ہے۔

اب تو مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کتنی دفعہ یہ جملہ سنا ہے، کہ دیکھیں امریکہ میں تو پوری دنیا سے زیادہ جنسی زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں۔

درست فرمایا، لیکن امریکہ ایسے زیادہ تر واقعات میں مجرموں کو سزا دے دیتا ہے، اور ریپ کو جرم سمجھتا ہے، اور اسے جرم سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جسے ہمارے پاس تفتیش اور مقدمے کے دوران زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

متھیرا اور دیپیکا

اس مہینے دو ایسی خبریں منظرعام پر آئی ہیں، جنہیں اخلاقی چھان بین کی ایک دلچسپ مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ایک متھیرا کے ہاں متوقع ولادت سے متعلق ہے، جبکہ دوسری فلم اسٹار دیپیکا پڈوکون کی ایک متنازعہ تصویر سے متعلق ہے۔

ان دونوں خبروں سے یہ بات واضح ہے، کہ کس طرح پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا فی میل سیلیبریٹیز کو نشانہ بنانے کے لیے دلچسپ طریقے اپناتا ہے۔ اور یہ دونوں خبریں اخلاقی پولیسنگ کا شکار عام خواتین کے بارے میں نہیں ہیں، اسی لیے یہ دونوں اس حوالے سے اہم بھی ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں جب بھی سماجی رویوں اور لباس وغیرہ کے ضابطوں کی بات آئے، تو سیلیبریٹیز کو اس سے مستثنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے، جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کی امیدیں کیا ہیں، اور معاشرہ کس جگہ لائن کھینچ دیتا ہے۔

پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا نے اس ایک مہینے میں یہ ثابت کردیا ہے، کہ ان میں سے کوئی بھی کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینے سے رکنے کو تیار نہیں ہے، پھر بھلے ہی وہ کسی عورت کے لیے متوقع ولادت کا معاملہ ہو، یا کسی خاتون کا لباس۔

کچھ لوگوں کے نزدیک سیلیبریٹیز خود اس طرح کی چھان بین کو دعوت دیتے ہیں، اور وہ ایسا کہنے میں مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی، ایک عوامی شخصیت کے لیے بھی ایک لائن ایسی ہے، جس کے آگے اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے۔

کیا تمام سیلیبریٹی میڈیا کی ان کی ذاتی زندگی کی طرف توجہ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ ہاں، کئی لوگ ایسا کرتے ہیں۔

لیکن کیا اس سے میڈیا کو یہ بہانہ مل سکتا ہے کہ وہ کسی شخص کی پرائیویسی کی پرواہ کیے بغیر کچھ بھی رپورٹ کردے؟ نہیں۔

متھیرا پہلی پاکستانی اداکارہ نہیں جنہیں اپنی متنازعہ ذاتی پسندیدگیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ کئی پاکستانی اداکاراؤں نے اس سے پہلے بھی محدود فلم انڈسٹری میں موجود محدود آپشنز کی وجہ سے "شاک ویلیو" کا فائدہ لینے کی کوشش کی ہے، پھر بھلے ہی وہ ان کے تعلقات کے بارے میں ہو، کپڑوں کے بارے میں، یا ان کے کرئیر کے بارے میں۔

اس لیے سیلیبرٹی کلچر دولتمند اور مشہور لوگوں پر قائم ہے، جو زیادہ سے زیادہ اسکرین ٹائم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب لوگ مشہور لوگوں کے بارے میں مختلف آراء قائم کرتے ہیں، اور اکثر اوقات یہ ان کی چوائس ہوتی ہے کہ لوگ ایسا کریں، جس کی وجہ سے ان کے خدوخال، وزن، تعلقات پر بحث ایک پوری انڈسٹری کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی اپنی کوئی پرائیویسی نہیں ہے۔

ایک عوامی شخص ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ شخص نہیں ہیں۔

متھیرا کے ہاں متوقع ولادت خبروں کی زینت اس لیے بنی، کیونکہ انہوں نے اپنے تعلقات اور اپنی شادی کی تشہیر نہیں کی، جس کی وجہ سے اخلاقیات کے ٹھیکیداروں کو ان کی شادی کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھانے کا موقع ملا۔ انہوں نے تنقید کا جواب ٹوئٹر کے ذریعے ان الفاظ میں دیا۔

"ایک آرٹسٹ کی حیثیت میں آپ عوامی ملکیت ضرور ہیں، لیکن آخر کیوں کسی کو آپ کی ازدواجی زندگی سے مسئلہ ہو؟ پاکستان آج جیسا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے کہ اس میں ایسے دو چہروں والے، دہرے معیار والے، اور بلا سوچے سمجھے رائے قائم کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ ہم نیا پاکستان کبھی بھی نہیں بنا سکتے"۔

جس طرح کے حالات ہیں، اس میں متھیرا کی بات سمجھ میں آنے والی ہے۔ پرانے بوسیدہ رویوں، اور دہرے معیارات سے پاک نیا پاکستان آخر کیسے ممکن ہے، یہ سوچنا بہت مشکل ہے۔

اب دیپیکا کی جانب چلتے ہیں۔ انڈین میڈیا میں ان کی تصویر منظرعام پر آنے کے بعد اس پر آنے والا ردعمل کافی مایوس کن رہا ہے۔ دیپیکا نے ٹائمز آف انڈیا کی جانب سے تصویر اور شہہ سرخی شائع کیے جانے پر کھلے عام اخبار کو تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ اخبار کی جانب سے کچھ ٹھوس موقف نہیں دیا گیا۔

دیپیکا نے حال ہی میں لکھا، کہ کردار کو کردار کی طرح ہی لینا چاہیے، اور کردار کے لباس اور وضع قطع کو حقیقی نہیں سمجھنا چاہیے۔ میں جو بھی کردار نبھانے کا عزم کروں، تو یہ میری ذمہ داری ہوگی کہ میں اسے ٹھیک سے ادا کروں۔

ٹائمز آف انڈیا نے جواباً دیپیکا کو ہی الزام دیا، اور کہا کہ وہ ایسے کلچر اور انڈسٹری سے وابستہ ہیں، جس میں جنسی تعصب پر کوئی تنقید نہیں کی جاتی۔

ٹائمز آف انڈیا کے اس جواب سے مسئلے میں صرف اضافہ ہی ہوتا ہے۔

ایک بار پھر یہی رویہ اختیار کیا گیا، کہ وہ ایک اداکارہ ہیں، وہ مردوں کے ساتھ اسکرین پر رومانس کرتی ہیں، اور ایوارڈ شوز کے لیے طرح طرح کے لباس زیب تن کرتی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ دوسری خواتین کے جیسا رویہ رکھنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔

اس طرح کے رویے اس لیے اہم ہیں، کیونکہ یہ اکثر سیلیبریٹیز سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔

جب پبلک یہ سمجھے، کہ کچھ لوگ کم عزت، کم پرائیویسی کے حقدار ہیں، کیونکہ وہ معاشرے کے رواج سے ہٹ کر کچھ کرتے ہیں، تو پھر یہ بات صرف ان تک محدود نہیں رہتی، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔

معاشرے کے کئی لوگ اس اخلاقی پولیسنگ کو کچھ خواتین تک محدود رکھنے کے بجائے تمام خواتین تک پھیلا دیتے ہیں۔

مغرب اور تمام مغربی طور طریقوں کو برا اس لیے سمجھا جاتا ہے، کیونکہ مغرب میں خواتین کو آزادی حاصل ہے۔ اگر مشرقی روایات کا جائزہ لیا جائے، تو یہ تمام روایات صرف اور صرف خواتین کی ذاتی زندگی، لباس وغیرہ کے متعلق ہیں۔

اور اسی لیے متھیرا اور دیپیکا کا کیس اہم ہے۔

اس لیے نہیں، کیونکہ ان کے کیسز کا آپس میں تعلق ہے، یا اس لیے نہیں کیونکہ وہ باقی سب کے بارے میں ہیں۔ بلکہ اس لیے کیونکہ وہ باقی لوگوں کے بارے میں نہیں ہیں۔

سرحد کے دونوں طرف اس طرح کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی معاشرے کی اخلاقیات یعنی خواتین کے رویے، کپڑے، چوائسز، اور کاموں کی پولیسنگ کی جائے، تو دونوں طرف ایک ہی جیسا حال ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Shoaib Adil Sep 27, 2014 09:17am
very good analysis