اسلام آباد: پاکستان ایئرفورس (پی اے ایف) کے ایک افسر کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مبینہ طور پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ان الزامات کے جواب میں اسکوارڈن لیڈر اختر عباس نے ایک اور پٹیشن لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ میں دائر کی ہے، جس میں درخواست کی گئی ہے کہ سیکریٹری دفاع اور ایئر فورس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے۔

پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکٹانے پر ان کے ساتھ ایک مجرم کے طور پر سلوک کیا گیا۔

دراصل اختر عباس نے پی اے ایف کے حکام کی جانب سے اپنی قبل از ریٹائرمنٹ کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد اس سال اپریل میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی۔

تاہم اس پٹیشن کے دائر کرنے کے فوراً بعد ہی ان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

18 اپریل کو دائر کی جانے والی پٹیشن میں اختر عباس نے دعویٰ کیا تھا کہ پی اے ایف کے حکام نے بعض بااثر افسران کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستوں کو منظور کرلیا تھا، لیکن ان کی درخواست کسی معقول وجہ کے بغیر مسترد کردی گئی۔

اس پٹیشن میں اختر عباس کا کہنا ہے کہ انہوں نے پی اے ایف میں 1998ء کے دوران شمولیت اختیار کی تھی، اور قوانین کے مطابق قبل از ریٹائرمنٹ کے لیے گزشتہ سال جون میں درخواست دی تھی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ پاکستانی نژاد امریکن ہیں، اور سیکورٹی کے مسائل اور دیگر خدشات کی وجہ سے پاکستان میں قیام نہیں کرسکیں اور ان کی اکلوتی بیٹی کو لے کر تقریباً چار سال پہلے امریکا واپس چلی گئیں۔

اس حالیہ پٹیشن کے ساتھ منسلک چارج شیٹ کے مطابق اختر عباس کے خلاف مختلف الزامات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے کارروائی کی جارہی تھی۔

ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے پی اے ایف کے ملازم ہوتے ہوئے وفاقِ پاکستان اور چیف آف ایئر اسٹاف کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ میں ایک رِٹ پٹیشن دائر کی۔

اس چارج شیٹ میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ دورانِ حراست سات مئی کو اختر عباس نے پی اے ایف کے ایک اور آفیسر اسکوارڈن لیڈر زبیر احمد کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دینے کا مشورہ دیا تھا۔

کامرہ سے تعلق رکھنے والے ایونکس انجینئر کا ایک وکیل کو حوالہ دیتے ہوئے اختر عباس کو پی ایف ایکٹ کے سیکشن 37(ای) کے تحت گرفتار کیا گیا۔

پی اے ایف حکام کی جانب سے اختر عباس کے عدالت سے رجوع کرنے پر گرفتار کیے جانے کے بعد ان کے وکیل ریٹائرڈ بریگیڈیئر وصاف خان نیازی جو سابق جج ایڈوکیٹ جنرل آفیسر بھی ہیں، نے توہین عدالت کی ایک پٹیشن دائر کردی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت میں ایک پٹیشن دائر کرنے پر گرفتار کرنا آئین کے آرٹیکل چار کے تحت ناصرف غیر قانونی ہے، بلکہ آرٹیکل 204 کے تحت اور توہین عدالت کے آرڈیننس 2004ء کے تحت عدالت کی توہین بھی ہے۔

اس پٹیشن میں بیان کیا گیا ہے کہ اختر عباس نے زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سامنے اعتراض پیش کیا، لیکن اس عدالت نے اس اعتراض کو مسترد کردیا ۔

اختر عباس کی پٹیشن میں اصرار کیا گیا ہے کہ یہ صرف ہائی کورٹ فیصلہ کرسکتا ہے کہ اس پٹیشن کو قبول کیا جائے یا نہیں۔

اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ایک افسر کو پٹیشن دائر کرنے پر حراست میں لینے سے پی اے ایف اور مسلح افواج کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ انہیں آئین کے تحت کوئی بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں