واشنگٹن: پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف کے خلاف نہیں، لیکن اس کو عالمگیر پیمانے پر اور بلاامتیاز ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ اقومِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69 ویں سالانہ اجلاس کے دوران پہلی مرتبہ ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کا سالانہ دن منایا گیا۔

اس موقع پر اقومِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ریاستوں پر زور دیا گیا کہ ’’اب ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کے مکمل خاتمے کا وقت آگیا ہے ۔‘‘

سب سے زیادہ متحرک اراکین کے ایک گروپ نے تمام ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل اور ہر ایک کے لیے مؤثر پابندی کے لیے کوشش کی، جبکہ دوسرےگروپ نے خاموشی سے پاکستان کو مرکزِ توجہ بنانے کی کوشش کی۔

ہندوستان نے اس گروپ کی قیادت کی، جس کا اصرار ہے کہ پاکستان ایک غیرمستحکم ملک ہے اور بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور سیاسی انتشار کا سامنا کررہا ہے۔

اس گروپ نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اور اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر کے قریب چھبیس ستمبر کو نواز شریف کے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے دھرنوں کی جانب بھی توجہ دلائی۔

انہوں نے زور دیا کہ دہشت گردی اور یہ سیاسی انتشار ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان موروثی طور پر ایک کمزور ریاست ہے، جس پر ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

پاکستان نے اس شدید حملے سے نمٹتے ہوئے زور دیا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے خلاف نہیں ہے۔

لیکن اس حوالے سے پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے وضاحت کی کہ پاکستان اس پابندی کو عالمگیری اور بلاامتیاز دیکھنا چاہتا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف قابل تصدیق ہونی چاہیے۔

اعزاز چوہدری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کا ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کا سبب کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے ایٹمی تجربے نے جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک توازن کو بگاڑ دیا تھا، اور پاکستان کے پاس اس کو بحال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس کے علاوہ اس اجلاس کے دوران امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے پاکستانی میڈیا کو بتایا کہ امریکا کے نائب صدر جوئے بائیڈن نے نواز شریف کے ساتھ اپنی ملاقات میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے لیے کہا تھا۔

دوسرے فریق کا اس درخواست پر ابتدائی تبصرہ کیا تھا، اس کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن اس ملاقات کے ایک دن بعد جاری ہونے والے بیانات میں تسلیم کیا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے وقت کا کچھ حصہ دہشت گردی پر تبادلۂ خیال میں صرف کیا۔

وہائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جاری لڑائی کی اہمیت کی توثیق کی۔

پاکستانی بیان میں کہا گیا کہ نواز شریف اور جوئے بائیڈن نے تسلیم کیا کہ دہشت گردی پاکستان اور امریکا کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے۔

بعد میں پاکستانی اہلکار نے واضح کیا کہ پاکستان آئی ایس آئی ایس کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی دلجمعی کے ساتھ حمایت کرتا ہے، تاہم اس پر غور کرنے کے لیے تذبذب کا شکار ہے کہ وہ اس سے نمٹ سکتا ہے۔

مذکورہ اہلکار نے نشاندہی کی کہ پاکستان پہلے ہی قبائلی علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کررہا ہے، اور اس کو یقین ہے کہ فاٹا میں دہشت گردوں کے خاتمے سے دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی لڑائی میں بھی مدد ملے گی۔

نواز شریف اور جوئے بائیڈن کی ملاقات ابتدائی توقع سے زیادہ طویل رہی۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے لیے آدھے گھنٹے کے دو سیشن مختص تھے، پہلے میں انہوں نے اپنے معاونین کے ساتھ اور پھر دوطرفہ ملاقات کی۔

ملاقات سے قبل جوئے بائیڈن نے کہا کہ امریکا کو خوشی ہے کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت قائم ہے اور اسی طرح کے جذبات کا اظہار وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں بھی کیا گیا۔

پاکستان کا سرکاری بیان وہائٹ ہاؤس کے بیان کے بعد جاری کیا گیا، جس میں دوطرفہ تعاون کی ترقی کی مثبت رفتار کا ذکر کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں