خوف کی سیاست

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2014
ڈر ایک بیش قیمت سیاسی ڈیوائس ہے، جو ہمیشہ سے حکمران عوامی رائے پر اثرانداز ہونے کے لیے نصب کرتے چلے آرہے ہیں۔
ڈر ایک بیش قیمت سیاسی ڈیوائس ہے، جو ہمیشہ سے حکمران عوامی رائے پر اثرانداز ہونے کے لیے نصب کرتے چلے آرہے ہیں۔

دنیا کے ہر حصے کے لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہو جنگجوﺅں کے گروپ جو خود کو ریاست اسلامیہ (آئی ایس) کے خود ساختہ اقدامات سے متاثر نہیں ہوئے، درحقیقت فکر کے لیے کافی بڑا میدان فراہم کرتے ہیں، خوفزدہ نظر نہ آنا غیر انسانی ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دہشت زدہ ہوا جائے؟

میرے خیال میں اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کہاں رہتے ہیں، وہ علاقے جو آئی ایس کے اثر کے زیرتحت ہیں خوف سے دوری غیرفطری لگتا ہے، مگر کیا ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود ڈرنا قابل فہم ہے؟

خیر ایسا اس وقت ممکن ہے جب آپ کو اپنے علاقے میں آئی ایس ریکروٹس کا سامنا ہو یا دہشت گردی کے اقدامات پر ہمدردی کا احساس پایا جاتا ہے، ایسے ممالک جیسے برطانیہ، بیلجئیم، اور آسٹریلیا وغیرہ جو دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں آئی ایس کو زیادہ ریکروٹ فراہم کررہے ہیں، میں یہ سوچ فروغ پارہی ہے جب ان رضاکاروں میں سے کچھ واپس آئیں گے تو مقامی طور پر تباہی کا عمل شروع ہوجائے گا۔

اس بات کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، ایسا بالکل ممکن ہے اگرچہ کئی عناصر اس کی نفی بھی کرتے ہیں جیسے میڈیا رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ متعدد احمق افراد جنھوں نے آئی ایس کے دروازے پر دستک دی، نے اپنے مغربی پاسپورٹس کو خلافت سے اپنے عزم کے اظہار کے لیے جلا ڈالا، جس سے ان کی واپسی کا امکان مشکل ہوگیا ہے۔

اسی اثناء میں سینکڑوں رضاکار جن کے بارے میں مانا جارہا ہے کہ وہ اپنے ممالک جیسے برطانیہ اور بیلجئیم واپس لوٹ گئے ہیں، کی جانب سے اب تک کسی دہشت گردانہ اقدام کا دعویٰ سامنے نہیں آیا، درحقیقت کچھ اداروں کا ماننا ہے کہ واپس آنے والے بیشتر افراد مایوسی کا شکار ہیں اور امن کو متاثر کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔

اب جب مغربی ممالک کی جانب سے عراق اور شام میں آئی ایس کے خلاف فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے: وہ افراد جو اس سے پہلے مغرب سے 'خلافت' کے علاقے میں جانے کے خواہشمند تھے، کیا اب اپنے گھر میں رہنے کا فیصلہ کرکے وہاں کچھ بدترین کریں گے؟ ایک بار پھر کہنا پڑے گا کہ ایسا ممکن ہے۔

امکانات کا فیصلہ کرنا آسان نہیں اور قیاس آرائیوں پر ہی زور دینا پڑتا ہے۔

مگر ڈر ایک بیش قیمت سیاسی ڈیوائس ہے، جو ہمیشہ سے حکمران عوامی رائے پر اثرانداز ہونے کے لیے نصب کرتے چلے آرہے ہیں، اس کی حالیہ مثال اسکاٹ لینڈ کی ریفرنڈم مہم ہے، جہاں سیاستدانوں، بینکرز، صنعتوں کے مالکان اور میڈیا کے ایک بورڈ نے مل کر ایسا تاثر پیدا کردیا تھا کہ آزادی کے لیے ووٹ سے اسکاٹ لینڈ انتہائی شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔

یہ حربہ لگتا ہے کہ کام کرگیا، مگر یہ یکطرفہ نہیں تھا، اسکاٹش ریفرنڈم فرنٹ کے اندر موجود افراتفری سے بھی لوگوں کے اندر اندیشے پھیلنے لگے، اور جب تک اس تاثر کو صاف کیا جاتا آزادی کو مسترد کرنے کا آپشن قابل عمل ہوچکا تھا۔

بظاہر غیرجمہوری معاشروں میں جابر حکومتوں کا خوف آبادی کے تمام طبقات میں سب سے غالب ڈر ہوتا ہے، تجربات بتاتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ڈر ہے جو ایک سے دوسرے تک پھیلتاہ ے اور اس کے غیرمتوقع نتائج سامنے آتے ہیں۔

اس کی ایک واضح مثال عرب بہار کے دوران دیکھنے میں آئی، جب تیونس میں حکومت کی تبدیلی کے لیے تشدد کا سلسلہ چند ہفتوں کے اندر پورے خطے کی آواز بن کر ابھرنے لگا اور یہ حقیقیت سب کے سامنے ہے کہ اس کے بعد سے ڈر کی ایک نئی لہر بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔

ہانگ کانگ میں اس وقت جاری احتجاج سے بھی ڈر کے پھیلنے کی عکاسی ہوتی ہے، اگرچہ وہاں کا اجتماع چوتھائی صدی قبل کے تیان من اسکوائر جیسے ہجوم جیسا نہیں جسے قتل عام جیسے المناک سانحے کا سامنا ہوا،اس وقت بیجنگ کی جانب سے امن کی بحالی کے ردعمل خوف کو پھیلا یا اور حکومت کی جانب سے مقبول اختلاف رائے پر کوئی مفاہمتی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا،تاہم اس بات کا کچھ خطرہ ہے کہ ہانگ کانگ میں جابرانہ حکمت عملی تیان من جیسے سانحے کا سبب نہ بن جائے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بیجنگ کا ایک بنیادی مقصد ہانگ کانگ میں ابھرتی جمہوری تحریک کو دبا دیا جائے، تاہم اس سے اس کے اپنے مرکزی خطے میں بھی ممکنہ ردعمل کے ابھرنے کا خطرہ سامنے آرہا ہے۔

تیان من اسکوائر کا معاملہ اسی دور کے کچھ واقعات کے درمیان سینڈوچ بن گیا تھا، یعنی 1988 میں میانمار میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر وہاں کے فوجی حکمرانوں کا ظالمانہ ردرعمل اور بتدریج خوف کی فضاءپھیل جانا، اس کے علاوہ سوویت یونین میں 1991 میں فوجی بغاوت کی کوشش جسے ناکام تو بنادیا گیا مگر اس سے پھیلنے والے خوف سے روسیوں کو اٹھنے پر مجبور کردیا اور سیاسی عمل کا سلسلہ شروع ہوا جو عوام کو سڑکوں پر لے آیا اور ظالم فوجی یونٹس نے ان پر فائر کھولنے سے انکار کردیا۔

یہ سلسلہ زیادہ لمبا نہیں رہا تاہم سوویت یونین کے بعد بھی خوف حکومت کا اہم ہتھیار رہا ہے، آج ولادی میر پیوٹن اپنی مرضی پوری کرنے کے لیے ہر اقدام کرنے پر کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کرتے ، جبکہ ان کے پڑوس میں ان کے مخالف بھی خود کو ہر اقدام کے لیے آزاد تصور کرتے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب جنگی جنون بڑھانے کی بات آئی تو خوف سیاسی اسلحہ خانے کا خاص جزو رہا ہے اور اس میں تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ مگر اسے معاشروں پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کو عام کرنے سے جمہوریت اور شفافیت میں مداخلت کے دعوے سامنے آتے ہیں اور یہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس پر عام تصور کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر سوالات اٹھائے جائیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: [email protected]

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں