کمبخت لاؤڈ اسپیکر

اپ ڈیٹ 03 نومبر 2014
کوئی بھی موقع ہو، لاؤڈ اسپیکر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے اکثر مخالفین کے خلاف اشتعال بھی پھیلایا جاتا ہے — فوٹو نوید امجد فوٹوگرافی
کوئی بھی موقع ہو، لاؤڈ اسپیکر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے اکثر مخالفین کے خلاف اشتعال بھی پھیلایا جاتا ہے — فوٹو نوید امجد فوٹوگرافی

ایک دن میں پانچ مرتبہ، ہفتے میں چھتیس مرتبہ اور سال میں ایک ہزار سات سو اٹھائیس سے زائد بار استعمال ہونے والا لاؤڈ اسپیکر بعض اوقات چند شر پسند جملے نشر کرنے پر ہلاکتوں کا سبب بھی بنتا ہے، جیسا کہ 2013 کے یوم عاشورہ کے موقع پر ہوا جب دو مختلف گروہوں کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف اشتعالی جُملے داغے گئے۔ جس کے نتیجے میں 8 لوگ لقمہ اجل بنے، 80 لوگ زخمی ہوئے اور متعدد دوکانیں راکھ کا ڈھیر بنیں۔

اس کے علاوہ بجلی سے چلنے والا یہ ہتھیار بوقت ضرورت کسی گروہ کے خلاف انتقامی کاروائی کے لیے اُکسانے کے کام بھی آتا ہے، جیسے 2009 میں سمبڑیال میں مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے فانش مسیح کے خلاف کچھ ایسے جملے اُگلے گئے۔ جس کے بعد ایک ہجوم نے فانش مسیح کے گھر حملہ کردیا اور لوٹ مار کرتے ہوئے گھر کو نقصان پہنچایا۔

مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے ہونے والے اعلان کے بعد فانش مسیح فرار ہوگیا۔ مگر مقامی پولیس اسے گرفتار کرنے میں کامیاب رہی اور کچھ ہی دنوں بعد فانش مسیح حوالات میں مردہ پایا گیا۔ بعد ازاں فانش مسیح کی موت کو خود کشی کا نام دے دیا گیا۔

دونوں ہی صورتوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مولوی صاحبان نے نظریہ ضرورت کے تحت کیا۔ اس کے علاوہ اسی لاؤڈ اسپیکر سے مساجد کے مولوی صاحبان مسجد کی تزین و آرائش اور نئے مینار کی تعمیر کے لیے کار خیر میں بھر پور شرکت فرما کر ثوابِ دارین حاصل کرنے کی بھرپوراستدعا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکر کے استعمالات میں شامل محلے میں ہونے والی فوتگیوں کے اعلانات، قل اور چالیسویں کے دعوت نامے، بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات اور روزمرہ میں پیش آنے والے مذہبی مسائل پر بھی مولوی صاحب کسی نمازی کے چندے سے خریدے گئے بلند میناروں پر آویزاں لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے ہی اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

بہت سارے اور موقعوں مثلا شب برات، بارہ ربیع الاول، رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں اور معراج شریف جیسے مبارک دنوں پر تو مولوی صاحب پر یہ لازم ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی اس نعمت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اللہ کی ہی مخلوق کی رہنمائی کریں۔

اگر دیکھا جائے تو کمبخت لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے سب سے زیادہ ہلاکتیں پچھلے سال یوم عاشورہ کے موقع پر ہوئیں۔ جس کے بعد اتحاد بین المسلمین کمیٹی نے ایک کوڈ آف کنڈکٹ مرتب کیا اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو صرف اور صرف اذان اور عربی میں خطبے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔

لیکن پاکستان کے یہ علما اس نکتہ پر عمل درآمد کیسے کروائیں گے اس کا تعین کرنا شاید بھول گئے۔ کیونکہ پاکستان کی تقریبا ہر مسجد کا مولوی ایک مکمل عالم دین ہوتا ہے اور ایک مکمل عالم دین بھلا کیسے کسی اور عالم دین کی رائے پر عمل کرسکتا ہے۔

خوش قسمتی سے پنجاب میں بہت سارے قوانین کے ساتھ ساتھ لاؤڈ اسپیکر اینڈ سائونڈ ایمپلیفائر آرڈیننس 1965 بھی موجود ہے جس کی رو سے مسجدوں، گرجا گھروں، مندروں یا دوسری عبادت گاہوں میں لاؤڈ اسپیکر اس طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے نکلنے والے آواز باہر جائے۔ مزید کسی سرکاری یا غیر سرکاری جگہ پر فرقہ وارانہ یا اختلافی نوعیت کی تقریروں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہیں ہو سکتا جس سے بد امنی کا خطرہ ہو۔

قانون میں یہ بھی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکرز مساجد یا عبادت گاہوں کے بیرونی دیواروں پر نہیں لگائے جائیں گے۔ قانون میں یہ شِق رکھنے کا مطلب شاید یہ ہوا کہ لاؤڈ اسپیکرز بنیادی طور پر مسجد میں موجود حضرات کے لیے ہوں گے تا کہ وہ مولوی صاحب کی فکر انگیز باتوں سے مستفید ہو سکے۔

اس کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر اینڈ ایمپلیفائرز ایکٹ 1965 کے مطابق لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کسی بھی عوامی جگہ، راستے، عوامی گزرگاہ، پبلک پارک یا پبلک گراؤنڈ اور کسی بھی ایسی جگہ پر جہاں دعوت نامے یا بغیر دعوت نامے کے عوام کی پہنچ ہو، ممنوع ہے۔

مزید اس قانون کے مطابق کسی کو حراست میں لے بھی لیا جائے تو اس کی سزا ایک ماہ قید یا دو سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ سب انسپکٹر یا اس سے اوپر کے کسی افسر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس جرم میں استعمال ہو نے والے آلات اپنے قبضے میں لے کر با اختیار عدالت میں پیش کرے۔

لیکن ہمارے پورے ملک میں اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی اتنی بری طرح دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، کہ قانون بیچارہ بھی اب ادھ موا ہو چکا ہے۔ سالہا سال سے جاری خلاف ورزی، لاؤڈ اسپیکر پر بلند ہونے والے کفر کے فتووں، اور غیر متعلقہ اور اشتعال انگیز باتوں پر یہ قانون شاید ہی کبھی حرکت میں آیا ہو۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب اس حوالے سے قانون موجود بھی ہے، تب بھی یہ حال ہے، سوچیں اگر نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔

چلیں ان سیریس باتوں کو چھوڑیں، یہ تو ہوتی ہی رہیں گی۔ ایک لطیفہ سنیں ہمارے ایک پیارے سیاستدان نے افغان حکومت کے ایک وزیر سے پوچھا کہ آپ کے پاس کون سی وزارت ہے؟ اس نے جواب دیا: ریلوے کی۔ پاکستانی سیاستدان نے جواب میں کہا: افغانستان میں تو ریلوے ہے ہی نہیں تو پھر وزارت کیسی؟۔ تو جواب میں افغانی وزیر نے کہا: آپ کے ہاں بھی تو وزارت قانون ہے جبکہ قانون نام کی تو کوئی بھی چیز آپ کے ملک میں پائی ہی نہیں جاتی۔

تبصرے (0) بند ہیں