اسلام آباد: حکومت کی جانب سے دہشت گردوں اور شدت پسند تنظیموں کے خلاف آئندہ چند دنوں میں کارروائی کے دوران 'کالعدم' قرار دیے جانے والے تقریباً 72 گروہوں میں سے کچھ کے خلاف ہی ایکشن متوقع ہے۔

محکمہ داخلہ کے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ابتدا میں حکومت کی توجہ صرف ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والی تنظیموں پر ہو گی۔

محکمہ کے ایک سینئر افسر کے مطابق، ایسی تنظیموں کو آئندہ پاکستانی سر زمین پر سرگرم ہونے کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی اور پرتشدد واقعات میں ملوث ان تنظیموں کے ارکان کو گرفتار کیا جائے گا۔

'گرفتاریوں اور تحقیقات کے بعد ان لوگوں کے خلاف طے شدہ طریقہ کار کے مطابق فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے'۔

انہوں نے تصدیق کی کہ حال ہی میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والے گروہوں کے خلاف کارروائی ہو گی، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

افسرکے مطابق، صوبوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے لائق مقدموں کی جانچ پڑتال کا کثر الجہتی طریقہ کار وضح کریں۔ محکمہ داخلہ کے افسر نے مزید بتایا کہ ان کا ادارہ بعد میں اس طریقہ کار کو مزید بہتر بنائے گا۔

اچھی تنظیمیں؟ خیال کیا جاتا ہے پابندی کی شکار زیادہ تر تنظیموں کے عسکری ونگ نہیں لہذا محکمہ داخلہ ان کے خلاف کارروائی کا منصوبہ نہیں رکھتا۔

محکمہ داخلہ کے سینئر افسر کے مطابق، تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف ایک ساتھ کارروائی کا' مشورہ نہیں دیا جا سکتا'۔

صوبوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کی شناخت اور ان کے اہم کارندوں پر کڑی نظر رکھیں۔

ایسے گروہوں کی بھی جانچ ہو گی جو پابندی عائد ہونے کے بعد دوسرے ناموں سے سرگرم ہو گئے۔

افسر نے ڈان کو بتایا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول کے تحت فوجداری الزامات کا سامنے کرنے والوں کی بھی نگرانی ہو گی۔

انہوں نے بتایا کہ ایکٹ کے تحت ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ شہر سے باہر سفر کرنے پہلےاور واپسی کی ممکنہ تاریخوں کے حوالے سے متعلقہ تھانے میں رپورٹ کریں۔

ایسے لوگوں کیلئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ جس علاقے میں جائیں وہاں کے تھانے میں بھی رپورٹ کریں۔

تاہم محکمہ داخلہ کے اس افسر نے تسلیم کیا کہ ماضی میں اس قانون کو عموماً نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔

افسر نے یہ تو نہیں بتایا کہ کون سے تنظیموں کو فوری خطرہ سمجھا جا رہا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آخر 72 کالعدم تنظیموں میں سے کتنی سرگرم ہیں اور کتنی تنظیموں نے اپنے نام تبدیل کیے ۔

جب ان سے گزشتہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے کالعدم گروہوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کیلئے نیا طریقہ بنایا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2013 میں کالعدم اہل سنت ولجماعت کے سربراہ احمد لدھیانوی سمیت تنظیم کے کم از کم 40 امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ 2013 میں الیکشن سے قبل ایک سے زائد مرتبہ احمد لدھیانوی سے مل چکے تھے۔

رانا ثناء اللہ نے ملاقاتوں کی صفائی دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ جماعت الدعوہ اور سپاہ صحابہ پاکستان کے کارکن دہشت گرد نہیں۔

محکمہ داخلہ کے افسر نے کالعدم تنظیموں سے تعلقات رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کے حوالے سے رائے دینے سے گریز کیا ۔

جون، 2010 میں احمد لدھیانوی نے دعوی کیا تھا کہ پی پی پی کے کم از کم 25 ارکان قومی اسمبلی ان کی حمایت کی وجہ سے 2008 کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئے ۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے کوارڈینیٹر حامد علی خان سے تبصرہ کیلئے رابطہ نہیں ہو سکا۔

تبصرے (0) بند ہیں