حقائق جو نصاب میں نہیں

اپ ڈیٹ 09 جون 2015
جو نوجوان اس خطے کی تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھتا ہے تو اس پر حقیقت کچھ اور عیاں ہوتی ہے، جبکہ اسے پڑھایا کچھ اور گیا ہوتا ہے — thenextweb.com
جو نوجوان اس خطے کی تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھتا ہے تو اس پر حقیقت کچھ اور عیاں ہوتی ہے، جبکہ اسے پڑھایا کچھ اور گیا ہوتا ہے — thenextweb.com

قومی ذہن کی تشکیل نصابِ تعلیم کے ذریعے سے کی جاتی ہے اور نصاب تعلیم کے ذریعے قوم پرستی اور وطن پرستی کا سبق بچپن سے ہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بالخصوص عالمی سطح پر قومیت کے تصور کو فروغ دیا گیا اور اسی تصور کے تحت ہر قوم نے اپنے اپنے وطن میں قومی ہیروز بنائے۔ اسی تصور کے تحت قومی پرچم بنایا گیا، قومی ترانہ لکھا گیا، قومی لباس، قومی پھول، قومی کھیل، قومی زبان، قومی ثقافت، غرضیکہ ہر چیز کے ساتھ قوم لگا کر انہیں مقدس بنا دیا گیا۔

مقدس ہونے کا یہ تصور پاکستان میں بھی کسی حد تک نصابِ تعلیم میں نظر آتا ہے۔ علمی زبان میں اسے نیشنل ازم کہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں نیشنل ازم کے بھی بے شمار تصورات موجود ہیں۔ جیسے مذہب کے فرقے ہیں، ویسے ہی نیشنل ازم کی تعریف کی بنیاد پر قومیتوں کا وجود ہے۔

پڑھیے: پاکستان کا فرسودہ تعلیمی نصاب

پاکستان کے ہر صوبے میں نیشنل ازم کی اپنی اپنی تعریف ہے اور اس نیشنل ازم کے تصور نے لسانیت کو فروغ دیا ہے جب کہ تاریخ، معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں تاریخِ پاکستان کو مسلم لیگ سے ہی جوڑا جاتا ہے، اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہوا وہ ہمارے بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔

نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ تاریخِ پاکستان کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد درمیان کے ہزار سال نکال کر اس خطے کی تاریخ کا آغاز سر سید احمد خان سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ہزار سال کے دوران کیا ہوا کس نے حکومت کی اور پھر کس طرح سے مسلمان زوال پذیر ہوئے اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ اس خطے میں جو جنگِ پلاسی ہوئی، جنگِ پانی پت ہوئی، جنگِ آزادی ہوئی، 1930ء کے قحط بنگال کے باعث لاکھوں افراد کے موت کی آغوش میں جانے کا ذمہ دار کون تھا، یہ حقائق نہیں پڑھائے جاتے۔

ہمارے طلباء کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1857ء میں لڑی جانے والی جنگِ آزادی میں دشمن کون تھا اور اس جنگ میں پچاس ہزار علماء کرام کو کیوں قتل کیا گیا تھا۔ تاریخ کی نصابی کتب میں میڑک تک جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں یا تو حقائق چھپائے گئے ہیں یا پھر حقائق کو سرکاری سطح پر اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ تاجِ برطانیہ یا پھر انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریکیں ہمیں پڑھائی نہیں جاتیں، یہ تضاد کیوں ہے؟

مزید پڑھیے: خفیہ نصاب

نوے سالہ انگریز حکومت کے دوران جو کچھ اس خطے کی معیشت کے ساتھ کیا گیا وہ کیوں نصابی کتابوں میں شامل نہیں؟ مسلمانوں پر سرکاری نوکریاں کس نے اور کیوں بند کی تھیں؟ نصابی کتب میں ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا کہ لاہور میں کس کی صدارت میں برصغیر پاک و ہند کا پہلا مشاعرہ ہوا تھا جس میں انگریزوں کو خراج تحسین پیش کر کے انہیں باعث رحمت قرار دیا گیا تھا۔

جس ادھوری تاریخ کے انجکشن ہمارے بچوں کو نصابی کتب کے ذریعے سے لگائے جارہے ہیں، اس سے نوجوان نسل کے ذہن بیمار ہورہے ہیں۔ جو نوجوان اس خطے کی تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھتا ہے تو اس پر حقیقت کچھ اور عیاں ہوتی ہے، جبکہ اسے پڑھایا کچھ اور گیا ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ کو بھی درست انداز میں نصابی کتب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون تھا؟ قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی پوری تقریر کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1956ء تک آئین پاکستان بنانے میں کون رکاوٹ تھا، یا پھر یہ کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کیوں بنا؟ کون کون پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیسوں کے عوض بِکتا رہا اور کون کون غداری کرتا رہا، یہ سب نصابی کتب سے کیوں چھپایا گیا ہے؟

حب الوطنی کا جذبہ نصابی کتب کے ذریعے سے پروان چڑھتا ہے لیکن نوجوان نسل میں اس جذبے کا عالم یہ ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سے فرار ہونا چاہتی ہے۔ نصابی کتب میں قیام پاکستان سے پہلے کی بھی ادھوری تاریخ پڑھائی جاتی ہے، جو جھوٹ پر مبنی ہے اور قیام پاکستان کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے 'نصاب اور تاریخ' جبکہ کے کے عزیز نے اپنی کتاب 'مرڈر آف ہسٹری' میں اس قسم کی جھوٹی تاریخ کے بے شمار حوالے درج کیے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

عزت مآب جناب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے نصابی کتب کو از سر نو لکھنے کا حکم دیا ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ تاریخ، مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی کتابوں کو تبدیل کیا جائے۔ اب اس حکم کے پیچھے کون سی منطق ہے، اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ اس کے لیے ہمیں نئی چھپنے والی کتابوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ ان کتابوں کو صوبے اپنے اپنے بورڈز کے ذریعے سے قانونی طور پر نافذ کرنے کے پابند ہیں یا نہیں، اس کی پیچیدگیاں بعد میں سامنے آئیں گی۔

نصاب تعلیم میں پہلے ہی بے شمار تضادات موجود ہیں اور اب نصاب تعلیم میں صوبائیت کا عنصر غالب آنے کا بھی خطرہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب ہر صوبے نے اپنا اپنا نصاب تعلیم مرتب کرنا ہے۔ کون چیک کرے گا کہ یہ نصاب تعلیم دیگر صوبوں سے متضاد نہیں؟

میرا خیال یہ ہے کہ ہر صوبے میں الگ نصابِ تعلیم کے بجائے ایک ہی نصاب بنایا جائے، تاکہ ملک کے تمام حصوں میں رہنے والے طلبا کی ذہنی نشونما اور معلومات ایک جیسی ہوں۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ایک دور دراز علاقے کے بچے کو بھی وہی معلومات حاصل ہوں، جو کسی بڑے شہر میں رہنے والے بچے کو۔ اس کا لازمی فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں بچے آپس میں مقابلہ کرسکیں گے جو کہ مختلف نصابوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی حکام کو اس معاملے پر ضرور سوچنا چاہیے۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (11) بند ہیں

Sharminda Jan 14, 2015 04:48pm
Main aap say bilkul itefaq karta hoon aur pooray mulk main aik hi nisaab nafiz hona chahiay. Hatta keh British Curriculam ka bhi Pakistan say khatima kar daina chahiay. Doosray mumalik kay loag apnay bachoon ko agar apna nisab parhana chahain tu embassy schools setup karain.
نعمان یونس Jan 14, 2015 07:03pm
بہت ہی اہم موضوع پر نہایت ہی جامع مضمون ہے۔۔۔ اس جیسے کچھ سوالات ہمارے ایک پاکستان اسٹیذ کے استاد صاحب نے بھی ہمیں بتائے تھے۔ لیکن جواب کا اب بھی انتظار ہے۔۔ اُسی طرح جس طرح اس مضمون میں موجود کئی سوالات میرے لئے بھی نئے ہیں اور ان کے جوابات کے لئے کافی تحقیق کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ امید ہے اکمل سومرو صاحب اس مضمون میں کئے گئے سوالات کے جوابات پر بھی کچھ لکھیں گے۔
pakistani Jan 15, 2015 12:42pm
hum ne apny nisab me muhammad bin qasim se le kr mughlia dor k zawal tak sab kuch parha hy .... or me ne sindh text book board ki books parhin thi. baki soobay kia parha rahe hain is ka muje nae pata
pakistani Jan 15, 2015 12:44pm
baki agr nisaab aik ho ga to is me poory mulk ka faida hy
M Arif Jan 15, 2015 03:38pm
Excellent article @Akmal Soomro sb
ali Jan 15, 2015 04:32pm
?Who lead first Indo-Pak Mushaira
adnan Jan 16, 2015 04:21pm
es therier k writer ko me salam karta hoon
یمین الاسلام زبیری Jan 17, 2015 05:26am
بہت ہی اہم موضوع پر اچھا مضمون ہے۔ ہمارے سامنے بٹوارے سے پہلے کی مثالیں موجود ہیں جن میں علی گڑھ سر فہرست ہے۔ جب ایک آدمی اور ایک ادارہ ایک اچھی کوشش کر سکتا ہے تو ہم حکومتی سطح پر ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ علیگڑھ کے پڑھے ہوئے لوگوں کی اردو اور انگریزی دونوں ہی بہت اچھی ہوتی تھیں۔ پاکستان میں اردو گھسٹ رہی ہے، اور انگریزی بھی اتنی اچھی نہیں۔ ہمارے ٹی وی کے پردے پر براجمان افراد انگریزی اردو کی ایک کھچڑی بول رہے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا، گوگل سے لے کر بی بی سی تک، اردو پر بہت توجہ دے رہے ہیں؛ لیکن ہمارے بدقسمت اسکولوں میں طلبہ کو ان اداروں سے فائدہ اٹھانا بھی نہیں سکھایا جارہا ہے۔ سارا پاکستان رومی اردو لکھنے میں فخر محسوس کر رہا ہے۔
Muhammad Asim Qureshi Jan 18, 2015 10:54am
مضمون میں جن سوالات کو اٹھایا گیا ہے وہ قومی طور پر بہت فکر کے حامل ہیں۔ ایسے سوالات ہمیں تحقیق کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ قومی و اجتماعی طور پر ہم نے جو غلطیاں کی ہیں اب ان سے جان چھڑا کر شعوری جدوجہد کر کے ملکی مسائل سے خلاصی کا وقت ہے۔ صاحب مضمون نے درست وقت پر بہترین کام کیا ہے۔ اسی نہج پر مزید تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
مصطفیٰ مہاروی Jan 20, 2015 05:40pm
یہ بات تو ثابت ھو چُکی کہ تعلیمی نصاب میں موجود تاریخ و مطالعہ پاکستان کی کتب میں جھوٹ چھپ چکا ھے۔ اب وقت ھے کی طلباء کو تاریخ کے اندھیروں سے واقف کروانے کی بجائے دیگر سائنسی، سماجی و معا شرتی مضامین دے کر مستقبل کی روشنیوں سے آگہی دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ دُنیا تیزی کے ساتھ بدل رھی ھے، جو پارلیمینٹیرین قانون سازی کی ابجد سے محروم ھیں، جو اپنی تقاریر دوسروں سے لکھواتے ھیں اُن کے احکامات کے تابع مطلوبہ تاریخ،معاشرتی علوم و مطالعہ پاکستان کو از سر نو لکھنے کا مطلب اپنے پسندیدہ اندھیروں کو ملا کر روشن اندھیرا بنانے کے مترادف ھو گا۔ فرنگی علم ،تہذیب و تخیلات تو انسان کو چاند سے آگے گئے اور کہکشاؤں کے راز زمین زادوں کو دے چُکے جبکہ ھم عجمیوں سمیت عرب کو ابھی تک حجاز و یمن کی سرزمین پر انسانی حقوق نہیں مل سکے۔ حقائق جو نصاب میں نہیں اور نصاب جو حقائق سے دور کرے۔۔ ناقابل قبول ھے۔
Jawed Ali Khan. Jun 10, 2015 01:51am
Aiy Liaquat Ali tum per golli challi yeh na jana, Haay haay yeh zalim zamana. As i grown up in Karachi i heard this sad song in almost every street and colony,the area of this city was limited.