مسلح کرنے کے فیصلے پر اساتذہ برادری میں اختلافات

03 فروری 2015
پشاور میں اسکول و کالجوں کے اساتذہ کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کے تربیتی سیشن کے دوران ایک خاتون ٹیچر اے کے-47 رائفل سے ہدف کو نشانہ بنارہی ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پشاور میں اسکول و کالجوں کے اساتذہ کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کے تربیتی سیشن کے دوران ایک خاتون ٹیچر اے کے-47 رائفل سے ہدف کو نشانہ بنارہی ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

پشاور: جب طالبان دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اور 150 بچوں اور ٹیچروں کا قتل عام کیا تو کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکا۔ شبنم تابندہ اور ان کی کچھ ساتھی ٹیچرز اس صورتحال کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں اور دہشت گردوں کو گولی مارنے کی مشق کررہی ہیں۔

خیبرپختونخوا کے سرکاری حکام نے سولہ دسمبر کے حملے کے ردّعمل میں ٹیچروں کو آتشیں ہتھیار رکھنے کی اجازت دی ہے۔ تاہم بہت سے ماہرین تعلیم نے ٹیچروں کو مسلح کرنے کے خیال کو عاقبت نااندیشی اور حقیقی مقاصد کو برباد کردینے والا قرار دیا۔اس قسم کے دلائل میں امریکی اسکول کے نظام کی مثالیں دی گئیں، جہاں بعض اوقات یہ اسلحہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھی استعمال ہوجاتاہے۔

لیکن سینتس برس کی تابندہ کی مانند غیر مسلح کام پر جانے والی ٹیچرز کے لیے اب کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ وہ اور دس دیگر ٹیچرز کے ہمراہ فرنٹیر کالج برائے خواتین پر نشانہ بازی کی مشق میں فخریہ حصہ لے رہی ہیں اور اپنے سولہ سے اکیس سال کے طالبعلموں کی حفاظت میں مدد کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں خود پر بھروسہ ہے کہ وہ اپنے اسکول میں ایک دہشت گرد کو ہلاک کرسکیں گی، تو تابندہ نے پرجوش انداز میں کہا ’’جی ہاں، جو کوئی معصوموں قتل کرتا ہے، انشاءاللہ میں انہیں شوٹ کردوں گی۔‘‘

خیبر پختونخوا میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر مشتاق غنی کہتے ہیں کہ صوبائی کابینہ ٹیچروں کو مسلح کرنے میں مدد کررہی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ منطقی اقدام اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے اُٹھایا گیا ہے کہ صوبے کی پولیس کے 65 ہزار جوان تقریباً پچاس ہزار اسکولوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یکسر ناکافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اسکول اب بےیارومددگار نہیں رہے، اور پولیس کی کمک آنے تک مسلح ٹیچرز ممکنہ حملہ آور کو روک سکتے ہیں۔

مشتاق غنی نے کہا کہ ٹیچروں کو لائسنس یافتہ آتشیں اسلحہ فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی، ان میں سے کئی تو پہلے ہی سے اپنے گھروں کی حفاظت پر قادر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔

واضح رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان حکومت کا تختہ الٹنے اور اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کرنے کے لیے پچھلی دہائی کے دوران ہزاروں لوگوں کو ہلاک کرچکی ہے۔

پشاور حملے کے بعد حکومت نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ قبائلی پٹی میں فوجی آپریشن میں اضافہ کیا ہے، جہاں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں، دہشت گردی کے الزام میں سزایافتہ افراد کے لیے سزائے موت بحال کردی گئی ہے اور گواہوں اور عدالتی حکام کے خلاف دھمکیوں کو روکنے کے لیے اس طرح کے مقدمات کو فوجی عدالتوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ملک بھر کے اسکولوں کو کئی ہفتوں کے لیے بند کردیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات افراد فوجیوں کے بھیس اختیار کرکے دیوار پھاند کر اسکول میں داخل ہوئے اور بچوں پر فائرنگ شروع کردی۔ ان بچوں میں بہت سے فوجیوں کے بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔

پشاور میں خواتین ٹیچرز ہتھیاروں کی تربیت کے ایک سیشن کے دوران۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پشاور میں خواتین ٹیچرز ہتھیاروں کی تربیت کے ایک سیشن کے دوران۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

جب طلباء و طالبات چھٹیوں کے بعد اس مہینے اسکول پہنچے تو ان کے بہت سے اسکولوں کی سیکورٹی میں اضافہ کردیا گیا تھا، جس میں چاردیواری کو بلند کرنا، کلوز سرکٹ نگرانی کا نظام اور نجی سیکورٹی گارڈ کی تعیناتی شامل ہے۔

ایسے بعض اساتذہ جو پہلے آتشیں ہتھیار کا استعمال جانتے ہیں اور لائسنس یافتہ اسلحہ رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے کلاس رومز میں یہ ہتھیار لے جانا شروع کردیا ہے۔

پشاور میں گورنمنٹ ہائی اسکول کے ٹیچر مینادر خان نے اپنی قمیض اُٹھا کر چھپایا ہوا پستول دکھاتے ہوئے کہا ’’میرا ہتھیار میرے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اسے اسی طرح ہمیشہ چھپا کر رکھتا ہوں۔‘‘ وہ پاکستانی ساختہ نیم خودکار سات گولیوں والا پستول تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے اسکول کے ٹیچروں نے اس حکومتی پلان پر تبادلہ خیال کیا، اور اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ ٹیچروں کو مسلح کرنا ایک مستحسن عمل ہے، تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ اپنے اسکول اور بچوں کا تحفظ کرسکیں۔

لیکن دیگر صوبوں نے ٹیچروں کو ہتھیار ساتھ رکھنے کے پشاور پلان کی پیروی نہیں کی ہے، اور زیادہ تر تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ درست طریقہ نہیں ہے۔

پشاور میں مقیم آل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر مزمل خان کہتے ہیں کہ سیکورٹی اقدامات میں اضافے سے طالبعلم پہلے ہی خوفزدہ ہیں، اور جب وہ اپنے ٹیچروں کو ہتھیاروں کے ساتھ دیکھیں گے تو ان کی بے چینی میں غیرضروری اضافہ ہوجائے گا۔

مزمل خان نے کہا کہ سرکاری حکام کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی سے اسکول کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ انہوں نے کہا ’’ہمارے ہاتھ قلم کے لیے ہیں، نہ کہ بندوق کے لیے۔‘‘

پرائمری اسکولوں کی ایسوسی ایشن کے صدر ملک خالد کہتے ہیں کہ ان کے اراکین نے ٹیچروں کو بندوق ساتھ رکھنے کی اجازت دینے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ تنظیم کئی ہزار ٹیچروں کی نمائندگی کرتی ہے۔

صوبائی حکومت ٹیچروں کے لیے آتشیں ہتھیاروں کی تربیتی ورکشاپ کو آگے بڑھانے پر زور دے رہی ہے، جس میں اس ہفتے ٹیچروں کے لیے ایک کلاس پشاور کے مشنری ادارے برائے طلباء و طالبات ایڈورڈز کالج پر ہوگی۔

تابندہ نے دو روزہ کورس میں ہینڈ گن کو لوڈ اور ان لوڈ کرنا اور فائر کرنا سیکھا ہے، وہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کو طالبان کی دہشت گردی سے پہلے ہی کافی نقصان اُٹھانا پڑا تھا، چند سال پہلے ان کے شوہر ایک خودکش بم حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔ ان کے پیٹ میں اس حملے کے بم سے لگنے والے چھرے موجود ہیں۔

تابندہ کہتی ہیں کہ جب انہوں نے اپنے ہدف کو پہلی مرتبہ نشانہ لگایا، تو ان کی پولیس انسٹرکٹر بہت متاثر ہوئیں، کہ انہوں نے ہدف کے سینے کو نشانہ بنانے کے بجائے اس کی آنکھ پر گولی ماری تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جب پہلی بار انہوں نے گولی چلائی تھی تو اس وقت دسمبر میں اسکول پر حملہ کرنے والے طالبان قاتلوں کا تصور کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں