طیّبہ بانو کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے اپنے والدین کی مرضی سے شادی کی۔ وہ ایک برطانوی خاتون ہیں، جن کی شادی پاکستانی شہری سے 2005ء میں ہوئی تھی۔

وہ اس وقت اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد اپنے بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کی جنگ میں گھری ہوئی ہیں۔ ان تین بدقسمت بچوں شہیر، نجم اور بے بی عائشہ کا معاملہ تاحال درمیان میں لٹکا ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا ’’انجم کو ہمارے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد منشیات کی لت لگ گئی تھی، اور اس نے خاندان کی ساری رقم منشیات اور شراب پر ضایع کردی۔‘‘

برطانوی پولیس نے گھریلو تشدد کے ایک کیس کے بعد اس کو خاندان کے گھر سے نکال دیا تھا، لیکن اس نے طیبہ بانو کے ساتھ مصالحت کا انتظام کرلیا اور دوبارہ اپنے خاندان کے ساتھ رہنے لگا۔

انہوں نے 2011ء میں طلاق لینے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور فروری 2012ء میں انجم راولپنڈی واپس چلا گیا۔

تاہم اس نے کچھ وقت گزرنے کے بعد طیبہ سے رابطہ کیا اور ان سے دعوے کےساتھ کہا کہ وہ اب تبدیل ہوگیا ہے، ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا کہ وہ بچوں کے ساتھ پاکستان آئے اس لیے کہ وہ انہیں بہت یاد کررہا ہے۔

مارچ 2013ء میں وہ اپنے بچوں کے ہمراہ ان کے والد سے ملوانے کے لیے آئیں، لیکن جلد ہی انہیں پتہ چل گیا کہ انہیں دھوکہ دینے کے لیے ایک جال بچھایا گیا تھا۔

طیبہ کے شوہر نے ان کا پاسپورٹ ضایع کردیا، اور ان کے سسرال والوں نے ان کے بچے انہیں واپس دینے سے انکار کردیا۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا، جس نے ان کے لیے دستاویزات کا بندوبست کیا تاکہ وہ برطانیہ واپس جانے کے قابل ہوسکیں۔

انہوں نے بتایا ’’یہ انتہائی مشکل فیصلہ تھا کہ میں اپنے بچوں کو چھوڑ دوں، لیکن میں اس کے سوا کیا کرسکتی تھی، میں پاکستان میں بالکل لاچار ہوگئی تھی۔‘‘

بالآخر وہ اکتوبر 2014ء میں برطانیہ پہنچ گئیں، انہوں نے لیوٹن کاؤنٹی کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی، جس نے حکم دیا کہ بچوں کو واپس انگلینڈ لایا جائے اور بچوں کے لیے ہنگامی سفری دستاویزات جاری کی جائیں۔

عدالت کا حکم نامہ لے کر وہ پاکستان واپس پہنچیں تاکہ اپنے بچوں کی واپسی کا دعویٰ کرسکیں، لیکن انہیں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں ملا، نہ ہی پولیس ان کی کوئی مدد کرنے کے لیے تیار تھی۔

طیبہ بانو نے بتایا ’’میں برطانوی ہائی کمیشن گئی، لیکن انہوں نے کہا کہ اس طرح کے معاملات صرف عدالت میں ہی حل کیا جاسکتے ہیں۔‘‘

اب تک انجم اپنے تین بچوں کے ساتھ روپوش ہے۔ ایک پریشان حال ماں اپنے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔

طیبہ بانو نے ایک پٹیشن لاہور ہائی کورٹ میں گزشتہ دسمبر کو دائر کی تھی، لیکن پولیس ان کے سابقہ شوہر اور ان کے بچوں تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے۔


ڈان کے ’’آئی وٹنس اکاؤنٹ‘‘ سیگمنٹ میں ایسے افراد کے واقعات پیش کیے جاتے ہیں، جو کسی پریشانی سے دوچار یا کسی ناانصافی سے متاثر ہوئے ہوں۔ جہاں تک ممکن ہوسکے گا، ان تمام واقعات کی تصدیق ڈان کی ایڈیٹوریل ٹیم کرے گی۔ قارئین اس طرح کے واقعات ارسال کرسکتے ہیں، تاکہ اس طرح کے معاملات کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرائی جاسکے۔ قارئین اپنے واقعات اس ای میل ایڈریس پر ارسال کرسکتے ہیں۔ [email protected]

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Salma Feb 04, 2015 05:04pm
Title doesn't make any sense i know girls who are paying the cost of their own decisions here in uk. The only thing is girls/boys have to be careful about taking these steps like taking your kids to the place where there is no law n order..
Imran Feb 04, 2015 07:14pm
The title is inspired by Khwateen digest:)