شکارپور حملے میں ملوث دہشت گروپ کی نشاندہی

اپ ڈیٹ 13 فروری 2015
پولیس اہلکار شکارپور امام بارگاہ پر بم حملے کے بعد ثبوت اکھٹا کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پولیس اہلکار شکارپور امام بارگاہ پر بم حملے کے بعد ثبوت اکھٹا کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: شکار پور امام بارگاہ پر ہوئے حملے کی تحقیقات کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک عسکریت پسند گروپ کی شناخت کرلی ہے، جو سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں کام کررہا ہے، اور اسی نے یہ ہلاکت خیز حملہ بھی کیا تھا۔

حکام نے فوراً ایک بین الصوبائی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، تاکہ دہشت گردی اور دونوں صوبوں کو نشانہ بنانے والی کالعدم تنظیموں کے خلاف تعاون کو بہتر بنایا جائے۔

یہ فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اس اجلاس کی صدارت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور چیف منسٹر سید قائم علی شاہ نے مشترکہ طور پر کی۔ اجلاس مں سندھ کے آئی جی غلام حیدر جمالی، کورکمانڈر لیفٹننٹ جنرل نویر مختار، سندھ رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل بلال اکبر اور اعلیٰ سطح کے حکام نے شرکت کی۔

اس اجلاس میں شریک ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ اور کورکمانڈر کو جمعہ کو اسلام آباد جانا تھا، جہاں وہ وزیراعظم کی صدارت میں قومی ایکشن پلان پر منعقدہ اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ذرائع نے بتایا ’’اس اجلاس میں شکار پور سانحے کی تحقیقات پر ہونے والی اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اس موقع پر یہ بھی بیان کیا گیا کہ بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں آپریٹ کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے گروپ کی جانب سے امام بارگاہ پر بم حملہ کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ اس بم حملے کا ماسٹرمائنڈ خیبر پختونخوا میں ہے، اور سہولت کار شکار پور میں تھے۔ تفتیش کاروں نے تحقیقات کے دوران پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، لیکن بعد میں انہیں رہا کردیا گیا۔ بارہ افراد زیرِ تفتیش ہیں۔‘‘

بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں ذرائع کے دعوے کی اس وقت تصدیق ہوگئی جب سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے اس اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے دونوں صوبوں کے حکام کے سیکورٹی کے معاملے پر اجلاس کا اشارہ دیا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف پالیسیوں کی تیاری میں تعاون کو بہتر بنانے کے لیے سندھ اور بلوچستان کی بین الصوبائی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا ’’اس اجلاس میں دونوں صوبوں کو درپیش مشترکہ مسائل کا جائزہ لیا جائے گا، اور ایسے اقدامات تجویز کیے جائیں گے، جن کے ذریعے دونوں فریقین سیکورٹی اقدامات کو بہتر بناسکیں گے۔ اس سے دونوں اطراف سیکورٹی پلان پر عملدرآمد میں کسی قسم کے خلاء کو پُر کرنے میں مدد مل سکے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے 64 مقدمات کو فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔

صوبائی وزیرِاطلاعات نے بتایا ’’قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے آغاز کے بعد پاکستان رینجرز سندھ نے کئی آپریشن کیے ہیں، جن میں 84 دہشت گردوں اور 17 قاتلوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے بھی 22 افراد کو لاؤڈاسپیکر کے غیرقانونی استعمال پر، 9 کو نفرت آمیز تقاریر کرنے پر اور بہت سے افراد کو وال چاکنگ کرنے پر حراست میں لیا ہے۔‘‘

اس سے قبل اجلاس میں صوبائی ایکشن پلان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا، جس کا دائرہ کار پورے سندھ میں پھیلادیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ’’اس اجلاس میں کہا گیا کہ اغوا برائے تاوان میں ملؤث بدنامِ زمانہ مجرم تیگو خان تیگانی کی گرفتاری کے بعد اغوا برائے تاوان کے کیسز میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں