اسلام آباد: ایک مشاورتی ورکشاپ کے دوران مقررین کا کہنا تھا کہ درسی کتابوں سے نفرت آمیز مواد کو خارج کرنے اور رحمدلی پر مبنی بیانیہ تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے، جو عدم برداشت اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے۔

’’پاکستان میں غیرمسلم شہریوں کی حیثیت کو بہتر بنایا جائے‘‘ کے زیرِعنوان یہ ورکشاپ پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے زیرِاہتمام بدھ کے روز ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔

پتن نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کس قدر دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، حقیقی مقصد یہ ہے کہ دہشت گردی کا اس کی جڑوں سے خاتمہ کیا جائے۔

سرور باری نے پتن کے زیراہتمام کیے گئےایک مطالعے کا حوالہ دیا، جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ سیاسی قیادت کو غیرمسلموں کو ضم کرنے کے لیے مشترکہ انتخابات کے ذریعے اقلیتی نشستوں کو پُر کیا جائے۔ اس مطالعے نے بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی بھی سفارش کی تھی۔

انہوں نے کہا ’’مذہبی لابی کی مضبوط گرفت اور اس سول و فوجی اشرافیہ کے ساتھ اتحاد نے ناصرف غیرمسلم شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا ہے، بلکہ ریاست کو بھی کمزور کیا ہے۔‘‘

سرور باری نے کہا کہ اس مطالعے میں حصہ لینے والے 80 فیصد لوگوں نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ توہین کے قانون نے پاکستان میں غیرمسلم شہریوں کے عدم تحفظ میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔

یہ مطالعہ ملتان، فیصل آباد، لاہور اور اسلام آباد میں نومبر دسمبر 2014ء کے دوران منعقد کیا گیا تھا۔ اس اجتماعی مباحثے کے 70 فیصد شرکاء مسلمان جبکہ تیس فیصد غیرمسلم کمیونٹیز سے تعلق رکھتے تھے۔

اس مطالعے سے ظاہر ہوا کہ آئین کے تین آرٹیکلز 20، 22 اور 33 مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوا بدقسمتی سے ان آرٹیکلز کی متواتر خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے، اور ریاستی عناصر اس خلاف ورزی کی مجرم ہیں۔

اس مطالعے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ مقامی کونسلوں کی غیرموجودگی نے بھی اقلیتوں کو درپیش مسائل کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔

عدم برداشت، مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی ریاست کی جہاد کے لیے حمایت پر مبنی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، تاہم اب بھی اس کو روکنے کے لیے ایک بیانیہ کی تعمیر کا امکان موجود ہے۔

اس مطالعے کے 85 جواب دہندگان نے تسلیم کیا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ایسے انتخابی حلقوں میں جہاں اقلیتوں کی آبادی زیادہ ہے، غیرمسلم امیدواروں کو دس فیصد ٹکٹ جاری کرے۔

93 فیصد نے تسلیم کیا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بلاتاخیر کیا جائے اور مقامی کونسلرز کو براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جانا چاہیے۔

اسی طرح 91 فیصد جواب دہندگان نے تسلیم کیا کہ حکام کو غیرمسلم شہریوں کے حقوق کے حوالے سے حساس ہونا ضروری ہے، اور جو کوئی بھی ان حقوق کی خلاف ورزی کرے، اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے انہیں بااختیار بنانا بھی ضروری ہے۔

زیادہ سے زیادہ 98 فیصد جواب دہندگان نے تسلیم کیا کہ نصابی کتابوں سے نفرت آمیز مواد خارج کیا جانا چاہیے۔ اور آخر میں 96 فیصد جواب دہندگان نے تسلیم کیا کہ موجودہ قوانین میں ترمیم کے لیے غیرمسلموں سے مشاورت کی جانی چاہیے اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے نیا قانون متعارف کرایا جائے۔

ورکشاپ کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک کے غیرمسلم شہریوں کی حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک ٹیکنیکل ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر رفیق راجوانہ نے کہا کہ ماضی میں مذہبی ہم آہنگی زیادہ مضبوط تھی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ماضی کی حکومتوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا تھا۔

صوبائی اسمبلی کے رکن رمیشن سنگھ اروڑا نے بھی اس بات پر زور دیا کہ نصابی کتابوں سے نفرت آمیز مواد خارج کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسائل پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے اور انہوں نے آئین کے کچھ آرٹیکلز کا حوالہ بھی دیا جو پاکستان کے شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شفقت عباسی نے کہا کہ اقلیتوں کے مسائل سے لازماً ترجیحی بنیادوں پر نمٹا جائے۔

خواتین کے اسٹیٹس پر قائم قومی کمیشن کی چیئر پرسن خاور ممتاز نے کہا کہ غیرمسلم کمیونٹی کی خواتین کو دہرے بوجھ کے تحت زندگی گزارنی پڑتی ہے، اس لیے کہ غیرمسلموں کے لیے شادی اور طلاق کے قوانین موجود نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں