ماہا احمد قریشی اس وقت نسٹ بزنس اسکول میں بیس سال کی طالبہ تھی جب ان میں لمف (سرخ ذرات کے بغیر خون) کینسر کی تشخیص ہوئی اور 2012 میں وہ کیموتھراپی کے آٹھ راﺅنڈز سے گزری۔

اگلے سال انہیں کیموتھراپی کے مزید چھ راﺅنڈز سے گزرنا پڑا۔

اپنے علاج کے دوران ماہا نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 2013 کے موسم گرما میں گریجویشن مکمل کرلی۔

گریجویشن کے بعد ماہا کے ڈاکٹروں کو کینسر کے دوبارہ پلٹ آنے کا کدشہ ہوا اور انہوں نے امریکا سے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا۔

ماہا بتاتی ہیں " پہلے تو میں نے ٹرانسپلانٹ کا خیال مسترد کردیا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ اس سے میری ذہنی اور جسمانی صحت پر طویل المعیاد نقصانات مرتب ہوں گے، مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ میں جسمانی طور پر ایک بار پھر کشش سے محروم شخصیت کی مالک نہ بن جاﺅں، کسی ایسے فرد سے پوچھیں جو دو بار سر کے بالوں سے محروم ہوچکا ہو، خود کو روزانہ اس وقت آئینے میں دیکھنا آسان نہیں ہوتا جب کیموتھراپی آپ کے جسم کے ہر زندہ خلیے کو تباہ کردے"۔

بتدریج ماہا کو احساس ہوا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے جینا چاہتی ہے جو ان تمام مشکلات میں اس کے ساتھ کھڑا تھا " میں نے سمجھ لیا کہ میں معمول کی زندگی جینے کے لیے نہیں بنی، میرا سنگ میل ویسا نہیں جیسے میرے فیس بک فرینڈز کا ہوتا ہے یعنی پہلی ملازمت، منگنی، شادی اور بچے وغیرہ"۔

آخری کار وہ علاج کے لیے تیار ہوگئیں اور آج یعنی 23 سال کی عمر میں وہ زندہ ہیں اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں مارکیٹنگ ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کررہی ہیں اور روزانہ بہت دیر تک کام کرتی ہیں " میرے لیے ہر دن ہی ایک سنگ میل ہوتا ہے، ایک ایسا دن جسے منایا جانا چاہئے"۔

فلک ناز اسفندیار مرحوم اسفندیار امیرزیب کی بیوہ ہیں جو کہ وادی سوات میں طالبان کی باآواز بلند مخالفت کرتے تھے2007 میں جب فضل اللہ کے حامیوں نے وادی کے عوام کو دہشت زدہ کرنا شروع کیا تو اسفندیار کی جانب دیکھنے لگے جو ایک شہزادے تھے اور ان کے خاندان نے اس وادی میں سو برس تک حکومت کی تھی۔

خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود فلک ناز اپنے شوہر کے ساتھ اس وقت کھڑی ہوئی جب وہ 2007 کے عام انتخابات میں ایک نشست کے لیے مہم چلا رہے تھے۔

اٹھائیس دسمبر 2007 کو اسفندیار کو طالبان نے ایک سڑک کنارے ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں ہلاک کردیا اور اس وقت ان کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف سات سال کی تھی۔

اس وقت سے فلک ناز سوات کے عوام کے لیے کام کررہی ہیں، انہوں نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنے گھر بار چھوڑ کر چلے جانے والے آئی ڈی پیز کے لیے فنڈز اکھٹے کیے، 2010 کے سیلاب کے دوران انہوں نے ایک بار پھر متاثرہ افراد میں خوراک تقسیم کرنے کے لیے فنڈز اکھٹے کیے۔

بعد ازاں وہ بذات خود تین سو سے زائد خاندانوں کی دوبارہ نقل مکانی کے عمل میں شامل ہوئیں اور وہ دلیری سے وادی میں حقوق نسواں کی حمایت اور ویمن ود آﺅٹ بارڈرز کی سرگرم رکن ہیں۔

ان کا کہنا ہے " آج کی خواتین کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے قانونی نظام ہے، چاہے وراثت کا معاملہ ہو، گھریلو تنازع یا طلاق، قانونی نظام کو انہیں تیز تر انصاف فراہم کرنا چاہئے"۔

نوشین غفور اس وقت چودہ سال کی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔

ان کا خاندان روزگار کے ذرائع سے محروم ہوگیا اور اس موقع پر نوشین کو احساس ہوا کہ اسے اسکول سے نکل کر ملازمت تلاش کرنا ہوگی۔

اس نے راولپنڈی کے ایک بیوٹی سیلون میں کام تلاش کرلیا اور وہاں سے اسے چار ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی ہونے لگی جو کہ اس خاندان کے لیے زندگی گزارنے کا ذریعہ بن گیا۔

نوشین پوری محنت سے کام کرنے لگی اور ملازمت کے دوران ہیئر ڈریسنگ اور میک اپ کی تربیت بھی حاصل کی۔

آج انیس سال کی عمر میں نوشین اسلام آباد کے ایک معروف ترین سیلون میں کام کررہی ہے اور وہاں سے ہونے والی آمدنی سے نوشین کو اپنی چھوٹی بہنوں کو اسکول بھیجنے میں مدد ملی ہے " پارلر کے اندر ہم خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں، یہ خواتین کی دنیا ہے مگر ان دیواروں سے باہر کی دنیا لڑکیوں کے زیادہ رحم دل نہیں، میری خواہش ہے کہ لوگ اپنے دیکھنے کے انداز سے ہمارے اندر غیرمحفوظ ہونے کا احساس پیدا نہ ہونے دیں"۔

نسیم اختر جہلم کے قریب ایک گاﺅں میں پیدا ہوئیں اور ان کے والد خواتین کی تعلیم پر پختہ یقین رکھتے تھے۔

انہوں نے اپنی اہلیہ کو گھر میں پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے میں مدد فراہم کی، اس وقت گاﺅں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا تو نسیم کے والد نے اپنی بیٹیوں کو بھی گھر میں تعلیم دی اور لڑکوں کے پرائمری اسکول کو قائل کیا کہ ان بچیوں کو امتحانات میں بیٹھنے دیں۔

بعد ازاں انہوں نے اپنا خاندان لاہور منتقل کردیا تاکہ بچے کالجوں میں جاسکیں، نسیم کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے گریجویٹ کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کے پہلے بیچ میں شامل تھی۔

نسیم نے اپنی گریجویشن مکمل کی اور فوج کے ایک نوجوان کیپٹن سے شادی سے قبل بطور ایک استاد کام کیا۔

کچھ سال تک وہ اپنی سسرال کے ساتھ ان کے گاﺅں میں رہیں اور اپنی نندوں کو گھر میں تعلیم دیتے ہوئے انہیں پرائمری مکمل کرنے میں مدد دی۔

سال 1971 میں ان کے شوہر جنگی قیدی بن گئے اور نسیم اختر اپنے چار بچوں کے ساتھ مشرقی پاکستان جانے پر مجبور ہوگئیں، کچھ ماہ بعد ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں " کئی ماہ تک مجھے معلوم نہیں ہوسکا کہ میرے شوہر زندہ ہے یا نہیں، مگر میں اپنے بچوں کے لیے مضبوط بنی، میں نے اپنی توجہ اس چیز پر مرکوز کردی کہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو"۔

آج 84 سال کی عمر میں وہ ماں، دادی اور پوتوں پوتیوں کے بچوں کی بھی دادی بن چکی ہیں جبکہ ان کے بچے ڈاکٹرز اور انجنئیرز ہیں، جبکہ ان کے پوتے نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے " ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے گاﺅن کی قسمت کو بدل سکتی ہے"۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nazir Shaikh Mar 08, 2015 11:42am
.Hats off to such courageous ladies.They deserve applause God bless them