'ذہنی بلوغت تک بچوں کی شادی نہ کی جائے'

03 اپريل 2015
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا کہ اگرچہ کونسل نے شادی کے لیے 16 برس کی عمر کی سفارش کی ہے، تاہم بچوں کی اس وقت تک شادی نہیں کرنی چاہیے، جب تک کہ وہ ذہنی طور پر پختگی حاصل نہ کرلیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک بچہ جب ذہنی بلوغت حاصل کرلے تو ان کی شادی کی جائے۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل محمد الیاس خان نے یہ بات کل صحت سے متعلق صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی۔ جب میڈیا کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی پر بات چیت کا اہتمام کیا گیا تو بڑی تعداد میں دیگر مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔

محمد الیاس خان نے کہا کہ اسلام میں کم سن بچوں کی شادی ممنوع ہے، نکاح نہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’بالفرض کم سن بچوں کے مابین نکاح پڑھایا جاتا ہے تو بلوغت حاصل کرنے کے بعد دولہا اور دلہن دونوں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ باپ یا دادا کی جانب سے پڑھائے کئے نکاح کو فسخ کرسکتے ہیں۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین اور دیگر اراکین کے برعکس ڈائریکٹر جنرل ایک سرکاری ملازم ہیں، جبکہ وہ لوگ سیاستدان اور مذہبی علماء ہیں۔

دو مہینے پہلے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد الیاس خان نے پیدائش میں وقفے کے بارے میں بات کی تھی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دیگر اراکین سے کہیں زیادہ متوازن خیالات کا اظہار کرکے حاضرین کی بڑی تعداد کو حیران کردیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’تاہم ایک ایسا نکاح بھی فسخ کیا جاسکتا ہے جس کے پسِ پردہ ذاتی مفاد پر مبنی کوئی فیصلہ ہو، جیسے کہ دو خاندانوں کے درمیان امن کا کوئی معاہدہ وغیرہ۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ بھی کہا کہ خواتین کو اپنے شوہروں کے ساتھ اس وقت ازدواجی تعلق سے انکار کردینا چاہیے اگر انہیں شبہ ہو کہ ان کے شوہر ایڈز کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اس لیے ایچ آئی وی سے متاثر ہے کہ ان کے شوہر اس سے متاثر ہیں۔

محمد الیاس خان نے کہا کہ ’’مشرق وسطیٰ سے واپس آنے والے اکثر مرد ایچ آئی وی میں مبتلا ہوتے ہیں، اور بیرون ملک سے آنے والے مردوں کی بیویوں کو ازدواجی تعلق سے اس وقت تک انکار کرنا چاہیے، جب تک کہ وہ ایچ آئی وی کا ٹیسٹ نہ کروالیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اسلام اس طرح کی صورتحال میں خواتین کو اپنے شوہروں کی اطاعت پر مجبور نہیں کرتا، اس لیے کہ زندگی اور عقیدے کا تحفظ اس مذہب کے بنیادی اصول ہیں۔

بحث کا رُخ خاندانی منصوبہ بندی کی جانب موڑتے ہوئے محمد الیاس خان نے عام طور پر پائے جانے اس یقین کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ خدا پالنے والا ہے، اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں جتنا کہ وہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہ ’’اگرچہ خدا اپنی مخلوق کو پالنے والا ہے، تاہم ہمیں اپنی شریکِ حیات کی صحت کو ترجیح دینی چاہیے۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ قرآن پاک میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ دو بچوں کے درمیان تیس مہینوں کا وقفہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگ ہر سال بچے پیدا کرتے ہیں، جس سے ایک خاتون کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا ’’بدقسمتی سے کچھ مذہبی پیشواؤں کی جانب سے غیرمنطقی فتووں نے الجھنیں پیدا کردی ہیں۔‘‘

انہوں نے مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر بھی تبادلۂ خیال کیا اور کہا کہ غیرمسلموں کو اپنے مذہبی پر آزادانہ عمل کرنے سے روکنا اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اقلیتوں کا لازماً تحفظ کیا جائے۔‘‘

ایک سوال کے جواب محمد الیاس خان نے کہا کہ ریاست کو سزائے موت کے منتظر قیدی کی پھانسی کی سزا معاف کرنے کا حق ہے، جبکہ حدود، قصاص اور انسانی حقوق کے مقدمات کی سزائے معاف نہیں کی جاسکتیں۔

آبادی کی کونسل کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے پروگرامز سیمیں اشفاق نے کہا کہ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا، اور 2050ء تک 34 کروڑ سے زیادہ افراد کے ساتھ یہ دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

آبادی کی کونسل اور گٹماکر انسٹیٹیوٹ کے ساتھ حال کیے گئے ایک مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے سیمیں اشفاق نے کہا ’’اگرچہ پاکستانی خواتین کی اکثریت تین بچے چاہتی ہیں، تاہم صرف بیس فیصد خاندانوں کو مانع عمل ادویات تک رسائی حاصل ہے۔‘‘

انہوں نے کہ حقیقت یہ ہے کہ 2004ء سے 2012ء کے درمیان پاکستان میں اسقاط حمل کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ کر دو لاکھ پچیس ہزار تک پہنچ گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرمطلوب حمل کی ایک بہت بڑی تعدا یہاں موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں