برف پانی کراچی کی ایک محبت بھری کہانی ہے جس میں شہر قائد کی ایک پر امن اور سادہ جھلک پیش کی گئی۔

ہدایت کار اور مصنف حمزہ بنگش کے اس تھیٹر کو زوہا شاکر نے پروڈیوس کیا ہے۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

بچپن کے دو دوستوں حسین(ہادی بن ارشد) اور سہانی (امتل باویجہ) کی کہانی پر مبنی تھیٹر برف پانی ان دو اہم کرداروں کی کہانی کے ارد گرد گھومتا ہے۔

اپنے کئریئر میں مشکل انتخابات سے لے کر ایک بہترین ساتھی کی تلاش تک اس تھیٹر میں ہر مسئلہ کے حوالے سے بات کی گئی۔

برف پانی ہی کیوں؟

ٹیکنالوجی کے دور میں ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں سمارٹ فون موجود ہوتا ہے، ایسے دور میں آج کی نسل نے باہر جاکر برف پانی اور چھپن چھپائی جیسے کھیل نہیں کھیلے ہوں گے۔

پرانی یادیں اس ڈرامے میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں:

بنگش نے اپنے تھیٹر کے لیے اس عنوان کا انتخاب اس لئے کیا کیوں کہ جب بھی ہم کسی مشکل میں مبتلا ہوجاتے ہیں ہمارے والدین یا رہنما ہمیں اس سے باہر نکلنے میں مدد کرتے ہیں جیسے برف پانی کے کھیل میں برف بنے شخص کو صرف پانی کہہ کر ہاتھ لگانے سے وہ آزاد ہوجاتا ہے۔

اسی طرح حسین اور سہانی دو ایسے بچے تھے جو بچپن میں کسی بھی مشکل میں پھنستے تو ان کو اس میں سے نکال دیا جاتا البتہ بعد میں ان کے ساتھ ایک غیر متوقع سانحہ پیش آیا جس سے ان کی جوانی کی زندگی مشکلات کا شکار ہوگئی۔

حسین اور سہانی کی کہانی

ڈرامہ ''میں کراچی میں پیدا ہوئی'' جملے سے شروع ہوا اس پلے میں دو پرانے گانے ''آپ جیسا کوئی'' اور ''اعتبار'' بھی شامل کیے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آج کے کراچی پر مبنی نہیں ہے۔

اس پلے کے شروعات میں حسن جہانگیر کا گانا ''ہوا ہوا'' چلایا گیا جس پر مجمع میں بیٹھے تمام لوگ جھومنے لگے کیوں کہ زیادہ تر اسی دور سے تعلق رکھنے والے تھے۔

شو میں انضام الحق کی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ٹکراؤ کا حوالہ دیا گیا جو ایسے موقع پر مناسب لگ رہا تھا جب پاکستان میں زور و شور کے ساتھ بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی ہے۔

ڈرامے میں جنس کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں موجود امیدوں کو بالکل مختلف انداز میں پیش کیا گیا۔ سہانی کرکٹر بننا چاہتی تھی جبکہ حسین کو کھیل سے نفرت تھی البتہ سہانی کے والد اسے وقتاً فوقتاً لڑکوں کے ساتھ کھیلنے پر ٹوٹکے دکھائی دیے۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

اس پلے میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب سہانی کی والدہ اور حسین کے والد ایک دھماکے میں ہلاک ہوجاتے ہیں، اس حادثہ کے بعد دونوں بچوں کو ان کے خاندان کی ضروریات کے لئے اپنے خوابوں کو بھولنا پڑا۔

دلچسپ زندگی کا خواب دیکھنے والی سہانی اب گھر کے معمولی کام کرتی ہے اور شادی کرنے کے مشورے برداشت کرتی ہے۔

جبکہ حسین اپنے خاندان کی ذمہ داریاں اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کے پاس اب صرف یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

اس ڈرامے میں ایک ایسا لمحہ آیا جب حسین کا کہنا تھا کہ ''یادیں جم چکی ہیں برف پانی کی طرح''۔

کیا کراچی کو برف پانی کی ضرورت ہے؟

ایک ایسا شہر جہاں کے رہنے والے ہمیشہ غیر متوقع کی توقع رکھتے ہیں وہاں برف بانی جیسا پلے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔ اس ڈرامے میں کراچی کی حقیقت دکھائی گئی ہے۔

خود کو اس ڈرامے سے منسلک کرنے کے لیے اس سے زیادہ اہم بات کیا ہوسکتی تھی کہ دونوں کرداروں نے اپنے پیاروں کو دہشت گردی کے واقعے میں کھودیا جو شہر میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

اس ڈرامے نے الگ موڑ تب لیا جب دونوں اداکار 24 سال کے ہوئے اور شادی کے لیے معاشرے کے تعنوں نے ان کی زندگیاں مشکل بنادیں۔ 'عمر نکلی جارہی ہے' اور 'دو تین رشتے تمہاری طرف بھی بھیجوں' جیسے جملوں نے تھیٹر میں موجود سامعین سے خوب داد وصول کی۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

آخر میں قسمت نے دونوں دوستوں کو ایک دوسرے سے دوبارہ ملا دیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے۔

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

دو اداکار، چار بلاکس اور کچھ لائٹس

برف پانی کا سیٹ نہایت سادہ تھا جیسا کے امتل بیان کرتی ہیں:

پلے میں صرف دو کرداروں نے آگے بڑھایا اور ڈرامے کا تسلسل کچھ اس طرح تھا کہ جب میں پرفارم کررہا ہوتا تو ہادی بلاکس کو کو سمبھالتا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کم وسائل میں بھی زیادہ کام کیا جاسکتا ہے۔'

فوٹو بشکریہ زویا انور
فوٹو بشکریہ زویا انور

ہادی کا کہنا تھا کہ اس کا اس پلے میں پسندیدہ جملہ ''زندگی برف کی طرح جم گئی ہے، اب کوئی پانی کہنے والا نہیں'' تھا۔

کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ہدایت کار اور کینز میں اپنی شارٹ فلم 'بادل' کی نمائش کرنے والے بنگش کا کہنا تھا کہ یہ ڈرامہ اردو میں پیش کیا گیا ہے البتہ اسے انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا۔

حمزہ بنگش — فوٹو بشکریہ زویا انور
حمزہ بنگش — فوٹو بشکریہ زویا انور

ان کا کہنا تھا کہ ' مجھے احساس ہوا کہ انگریزی پاکستان میں تقسیم کرنے والی زبان ہے اور لوگ آپ کی زبان اور تلفظ سے آپ کے بارے میں اندازے لگاتے ہیں تاہم اردو کے ساتھ ایسا تعصب نہیں کیا جاتا اور میں لوگوں کو برف پانی سے دور نہیں رکھنا چاہتا تھا۔'

اس پلے کا ترجمہ حمیرہ امان اللہ نے کیا ہے اور اس میں تقریباً دو مہینہ لگے۔

یہ ڈرامہ 31 مئی کو ختم ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں