پشاور: خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے ایک دن بعد فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافین) نے اس حوالے سے اپنی ابتدائی رپورٹ جاری کردی ہے۔

اس رپورٹ مطابق صوبے کے چوبیس اضلاع کے 462 وارڈوں سے فافین کے 987 مبصرین نے بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کے اہم مسائل کی رپورٹ دی ہے۔

خیبر پختونخوا میں فافین کے چیئرپرسن ظہیر خٹک نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں آٹھ فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ بدانتظامی کی وجہ سے بہت سے ووٹ کاسٹ نہیں کیے جاسکے، اس لیے کہ ووٹروں کی بڑی تعداد پولنگ اسٹیشنوں سے واپس چلی گئی تھی۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بھی بتائی کہ پولنگ کا عمل سست اور طویل تھا۔

تقریباً 13 فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں رپورٹ ملی تھی کہ انہیں پولنگ کے سرکاری وقت 8 بجے صبح کو کھول دیا گیا تھا۔

فافین کے بورڈ آف ٹرسٹی کی ایک رکن میمونہ نور نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات ایک بڑی مشق تھی، لہٰذا اسے گزشتہ بلدیاتی انتخابات کی طرز پر مرحلہ وار منعقد کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلی تھیں، لیکن بدانتظامی کی وجہ سے ووٹ کاسٹ نہیں کرسکیں۔

فافین کے چیف ایگزیکٹیو شاہد فیاض نے اس رپورٹ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹروں اور یہاں تک کہ امیدواروں کی بھی کسی قسم کی رہنمائی نہیں کی۔

کئی رنگوں کے بیلٹ پیپرز کے ساتھ پولنگ کا عمل بہت سے لوگوں کے لیے پریشان کن تھا۔ پولنگ کے دوران بے ضابطگیوں، بدانتظامی اور بہت سی جگہ تشدد کے واقعات کی وجہ سے بھی پولنگ میں خواتین کی شرکت غیرمؤثر رہی۔

30 مئی کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں ابتدائی رپورٹ میں شامل مبصرین کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے بعض مشاہدات کا حوالہ دیتے ہوئے فافین نے بیان کیا کہ اگرچہ انتخابی مہم کا دورانیہ بڑے پیمانے پر پُرامن تھا، تاہم حکومتی بدانتظامی، ووٹنگ کا انتہائی سست رفتار عمل، عملی بے ضابطگیاں اور تشدد کی کئی رپورٹیں اور خواتین پر پابندی پولنگ کے دن نمایاں رہیں۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ فافین کے بہت سے مبصرین نے بے ضابطگیوں کا مشاہدہ کیا۔ بلدیاتی انتخابات میں اہم مسائل میں سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ انتخابات کے انعقاد میں شامل ووٹرز، امیدواروں اور انتخابی و سرکاری عملے سمیت اسٹیک ہولڈرز کے ذہنوں میں نئے بلدیاتی نظام کا تصور واضح نہیں تھا۔ اسی طرح ووٹروں کے حقوق کا احترام قانونی طور پر اہم تھا، اور ان کے تحفظ کے لیے الیکشن کمیشن جوابدہ تھا۔

فافین کے ابتدائی نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابی قوانین کو آزادانہ طور پر خلاف ورزی کررہے تھے، جن کے تحت پولنگ اسٹیشنوں کے 200 میٹرز کے دائرے کے اندر کنونسنگ پر پاپندی ہوتی ہے۔

پولنگ اسٹیشنوں کے نزدیک قائم کیے گئے پارٹی کیمپس پر امیدواروں کی انتخابی مہم بلا روک ٹوک جاری ہی اور ان سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کسی قسم کی کارروائی کی اطلاع نہیں ملی۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ 13 فیصد پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ دیر سے شروع ہوئی اور 24 میں سے 14 اضلاع میں پولنگ تاخیر کا شکار ہوئی۔

پولنگ کے عمل کی سستی نے بھی اس عمل کو کئی گھنٹے طویل کردیا تھا، چنانچہ ایبٹ آباد اور بٹگرام جیسی جگہوں پر رات آٹھ بجے بعد بھی پولنگ جاری رہی۔

فافین نے ایک الیکشن کمیشن کے کردار کی وضاحت، آزادانہ اور شفاف بلدیاتی انتخابات اور آئین میں دیے گئے ووٹروں کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک وفاقی قانون سازی کی تجویز پیش کی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں