کے پی انتخابات میں بدنظمی

پشاور میں بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر جمع افراد — آن لائن فوٹو
پشاور میں بلدیاتی انتخابات کے دوران ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر جمع افراد — آن لائن فوٹو

ضلعی اور ٹاﺅن کونسلرز کو ان کے حجروں میں ان کے حامیوں نے گھیر رکھا تھا۔

جنرل اور یوتھ کونسلرز کارنر شاپس پر گپ شپ لگا رہے تھے، رنگا رنگ پوسٹرز اور انتخابی نشانات دیواروں پر سجے ہوئے تھے۔

ہم لوگ غیرمتوازی گلیوں سے گزرتے ہوئے پشاور کی ایک یونین کونسل عمر پایان کے پولنگ اسٹیشنز کی جانب جارہے تھے جہاں تیس مئی کو بلدیاتی انتخابات کے موقع پر تشدد کے واقعات پیش آئے تھے

ہم ایک گورنمنٹ اسکول پہنچے جسے گزشتہ ہفتہ ایک پولنگ اسٹیشن کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، آج یہ بند تھا تاہم وہاں موجود چوکیدار چابیاں لے آیا۔

ایک کلاس روم کے اندر پریزائیڈنگ افسر، پولنگ بوتھ وغیرہ کے بورڈز لگے ہوئے تھے، کرسیاں اور مزیں بکھری ہوئی تھیں جبکہ کچھ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے جن کے ذرات فرش پر دیگر کچرے کے ساتھ بکھرے ہوئے تھے۔

ان میں کاغذ کے ٹکڑے، ریپرز، بسکٹوں کے پیکٹ اور کچھ پھٹے ہوئے بیلٹ پیپرز بھی شامل تھے۔ کسی نے مجھے بتایا " بیلٹ بکس کو یہاں لگایا گیا تھا"، گلی سے ہمارے ساتھ آنے والے ایک اور شخص نے بتایا "جب وہ شرپسند آئے تو انہوں نے بیلٹ باکسز اور کھڑکیوں کے شیشوں کو توڑ دیا"۔

اب وہاں لوگ جمع ہونے لگے تھے اور ہر ایک ان واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کررہا تھا۔

نواز لیگ کے ایک حامی افتخار علی نے بتایا " یہ سب کچھ اس خواتین کے پولنگ اسٹیشن سے شروع ہوا، مردوں کو یہاں داخلے کی اجازت نہین تھی مگر پی ٹی آئی کے لوگ اندر گھس آئے اور بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگانے لگے، جب دیگر جماعتوں کے امیدوار اور حامیوں کو اس کی اطلاع ملی تو وہ بھی یہاں پہنچے، انہوں نے دروازہ توڑ دیا اور دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ورکرز بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگارہے ہیں۔ پھر مزید لوگ آگئے اور جھگڑا شروع ہوگیا، بعد ازاں پولنگ کو منسوخ کردیا گیا اور فوج بیلٹ باکسر کو اپنے ہمراہ لے گئی، پھر کچھ لوگ مردوں کے پولنگ اسٹیشن میں تشدد کرنے لگے اور پورے یونین کونسل میں انتخابی عمل منسوخ کردیا گیا"۔

ضلعی کونسلر کے لیے مسلم لیگ ن کے امیدوار حاجی ملک نثار نے الزام لگایا " ایسا حکومت، انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ پارٹی ورکرز کررہے تھے، انہوں نے ہماری خواتین ووٹرز کو کہا کہ اب تک ووٹوں کو کاسٹ کرنے کے لیے اسٹمپ نہیں پہنچی ہے، انہوں نے پی ٹی آئی کی ووٹرز کو اندر جاکر ووٹ ڈالنے دیئے"۔

انہوں نے مزید کہا " پولنگ شروع ہونے کے دو گھنٹے بعد بھی مردوں کے پولنگ اسٹیشن پر صرف 29 ووٹ کاسٹ ہوئے تھے، جبکہ خوایتن کے پولنگ اسٹیشن پر 211 ووٹ کاسٹ ہوچکے تھے، جب لوگوں نے اس دھاندلی کے بارے میں سنا تو وہ خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر پہنچے، جس وقت ہم یہاں پہنچے کچھ لوگ پہلے ہی بیلٹ باکسز کو توڑ کر بھاگ چکے تھے"۔

جماعت اسلامی کے مقامی رہنماءلطیف الرحمان نے اس کا الزام پی ٹی آئی کی " تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ " خواتین پولنگ ایجنٹوں کے اوپر لگایا " پی ٹی آئی کی خواتین ایجنٹس تعلیم یافتہ، بہت زیادہ تربیت یافتہ اور باشعور تھیں، میں اپنے ہمراہ 130 خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے لے کر آیا۔ پی ٹی آئی ایجنٹس دیگر خواتین کو یہاں آکر بلے (تحریک انصاف کا انتخابی نشان)کو ووٹ ڈالنے کے لیے کہہ رہی تھیں۔ سیکیورٹی گارڈ نے مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں دی، پی ٹی آئی کی خواتین تمام مقامی خواتین پر اثرانداز ہورہی تھیں جو کہ انتخابی عمل سے واقف نہیں تھیں، پھر متعدد افراد یہاں پہنچ گئے اور سب کچھ توڑ پھوڑ دیا"۔

ضلعی کونسلر کے لیے اے این پی کے امیدوار کا بھی ماننا ہے کہ تشدد کے پیچھے جو وجہ چھپی ہوئی ہے وہ " باہر کی خواتین" تھی۔

اے این پی کے امیدوار ملک قمر الزمان نے کہا " وہ صرف ان مقامی خواتین کو اندر آکر ووٹ ڈالنے کی اجازت دے رہی تھیں جو بلے کو ووٹ دینا چاہتی تھیں"۔

اب ہم پی ٹی آئی کے امیدوار کی جانب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ہم سے اگلے دن رابطے کا کہا ، تاہم ہمارے اصرار پر ہمیں مرکزی پشاور شہر میں ایک ملاقات کے لیے مدعو کرلیا۔

پی ٹی آئی امیدوار نوید خان برکی نے بتایا " پورا میڈیا ہماری جماعت کے خلاف متحد ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ میں صحافیوں سے ملاقات سے گریز کررہا ہوں"۔

پھر وہ اصل موضوع پر آگئے " بنیادی طور پر وہ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ خواتین ووٹ ڈالیں، نواز لیگ، اے این پی، آزاد امیدواروں، سب نے مجھ سے کہا کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے مگر میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ ہم جانتے تھے کہ مقامی خواتین پولنگ کے عمل سے واقفیت نہیں رکھتیں، تو میں نے اپنی پشاور کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والی اپنی تمام خواتین رشتے داروں کو جمع کیا اور انہیں اپنی یونین کونسل کا پولنگ ایجنٹ کی ذمہ داری سونپ دی۔ جب دیگر امیدواروں نے دیکھا کہ خواتین کی اکثریت پی ٹی آئی کو ووٹ دے رہی ہے اور ہماری خواتین ایجنٹس اچھا کام کررہی ہیں تو مخالفین تشدد پر ابھر آئے"۔

ان کا مزید کہنا تھا " وہ نواز لیگ اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے کچھ ہوائی فائر بھی کیے"۔

ایک خاتون اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر جنھیں اس پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی دی گئی تھی، نے بتایا کہ انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا " جب ہم پولنگ میٹریل کے ساتھ پہنچے تو پولنگ اسٹیشن پہلے ہی اپنی گنجائش سے زیادہ بھر چکا تھا، یہاں موجود خواتین اس بات بھی واقف نہیں تھیں کہ قطار کیسے بنائی جاتی ہے"۔

انہوں نے مزید بتایا " ہم نے تین پولنگ بوتھ قائم کیے تھے مگر ہجوم کو صرف دو تک ہی جانے کی اجازت دی جارہی تھی، وہاں لگ بھگ ہر جماعت کی پانچ ایجنٹسموجود تھیں مگر وہ اس صورتحال کو سنبھالنے سے قاصر تھیں، جس وقت ہم نے پولنگ کے عمل کو شروع کرنے میں کامیابی حاصل کی تو مردون کا ہجوم اندر گھس آیا اور سب کچھ بند کرنے کا حکم دیا، انہوں نے وہ سب کچھ توڑ دیا جو انہیں نظر آیا۔متعدد افراد پولنگ میٹریل کو اپنے ساتھ لے گئے، ہم نے ایک پولیس اسٹیشن میں پناہ لی"۔

ان کا کہنا تھا " ایسا سب کچھ عملے کی کمی اور لوگوں کی پولنگ کی مخالفت کے باعث ہوا"۔

گزشتہ دو دہائیوں سے سیاسی ڈویلپمنٹ کو دیکھنے والے ایک سنیئر صحافی سجاد خان ترکزئی نے کہا " یہ انتخابات بہت بڑی سرگرمی تھے، لگ بھگ ہر ایک اس کا حصہ بنا کیونکہ اس میں متعدد امیدواروں نے شرکت کی اور یہ حقیقی معنوں پر گراس روٹ لیول پر ہونے والے انتخابات تھے، مزید برآں لوگ اپنے ہمراہ ہتھیار بھی لائے تھے، تو تشدد کوئی دور دراز کا امکان نہیں تھا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

nasreen Jun 05, 2015 09:10am
Imran Khan should have the election redone!