جب زندگی لہروں سے ہار گئی

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2015
ترکی کے ساحل پر پڑی اس بچے کی لاش نے عالمِ اسلام کو چھوڑ کر ساری دنیا کا ضمیر جگا دیا ہے.— خاکہ بشکریہ Islam Gawish - twitter.com/islamgawish
ترکی کے ساحل پر پڑی اس بچے کی لاش نے عالمِ اسلام کو چھوڑ کر ساری دنیا کا ضمیر جگا دیا ہے.— خاکہ بشکریہ Islam Gawish - twitter.com/islamgawish

عبداللہ کوبانی شام کا رہائشی ہے۔ کوبانی شام کے شمال میں ترکی کی سرحد کے قریب ایک قصبہ ہے جسے 'عین العرب' بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے دمشق میں حجام کی دکان بنا رکھی تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ کوبانی منتقل ہو گیا اور وہاں بھی حجام کے طور پر کام کرنے لگا۔

اللہ نے عبداللہ کو چاند سے دو بیٹے عطا کیے۔ اس نے بڑے بیٹے کا نام غالب اور چھوٹے کا نام ایلان کردی رکھا۔ عبداللہ نے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے زندگی کو گیہوں کی طرح چکی میں پیسنا شروع کر دیا۔ ادھر 2011 کے دوران شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف شورش شروع ہو جاتی ہے۔ باغی بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیتے ہیں، حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو امریکا اور مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔

تین سال بعد جون 2014 میں داعش خلافت قائم کرنے کا اعلان کر کے شام اور عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے اور یوں شام بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ 2 لاکھ سے زائد لوگ عالمی طاقتوں کی رسہ کشی اور انا کی نذر ہو جاتے ہیں۔ عبداللہ کے قصبے کوبانی میں بھی کرد ملیشیا اور داعش کے عسکریت پسندوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہو جاتی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی بھی داعش کے خلاف کوبانی میں بمباری کرتے ہیں، کوبانی کی فضا داعش اور کرد ملیشیا کی خون آشام جنگ سے اٹ جاتی ہے۔

عبداللہ کو دولتِ اسلامیہ یا کوئی اور جہادی تنظیم کوبانی کے محاصرے کے دوران اغوا کر کے تشدد کا نشانہ بھی بناتی ہے۔ اسی خانہ جنگی کے باعث عبداللہ کردی اپنے خاندان کو شام سے ترکی لے آتا ہے۔ ترکی میں وہ 17 ڈالر یومیہ اجرت پر ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازمت شروع کر دیتا ہے۔ غریب الوطنی، دو بچے، اور 17 ڈالر یومیہ، عبداللہ کا ان پیسوں میں گزارا مشکل ہو رہا تھا لہٰذا اسے گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لیے اپنی بہن تیما کردی سے مالی مدد لینا پڑتی جو اپنے خاندان کے ہمراہ کینیڈا میں مقیم ہے۔

پڑھیے: دنیا کو دہلا دینے والا شامی بچہ سپردخاک

عبداللہ کے والد آج بھی شام میں مقیم ہیں۔ انہیں بیٹے کی تنگدستی، غریب الوطنی اور چاند سے پوتوں کے غیر یقینی مستقبل نے پریشان کر رکھا تھا۔ والد کی خواہش تھی کہ عبداللہ ترکی سے یورپ چلا جائے تاکہ وہ اپنے خاندان کو نئی زندگی دے سکے، لیکن عبداللہ کمسن بچوں اور بیوی ریحانہ کو تنہا ترکی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

عبداللہ کو معلوم تھا کہ گزشتہ ایک سال میں 2 لاکھ سے زائد مہاجرین سمندر کے راستے یونان میں داخل ہوئے ہیں، یہ افراد رات کی تاریکی میں، چھوٹی کشتیوں میں سوار، زندگی ہتھیلی پر رکھ کر یونان کے کوس جیسے جزیروں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مہاجرین یورپی ممالک ہنگری، جرمنی اور دیگر میں پناہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں، بعض مہاجرین ہنگری، سلوینیا، پولینڈ یا ایسٹونیا سے گزر کر جرمنی جانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ریاستیں سماجی بہبود کی فلاحی ریاستیں بن چکی ہیں، جن کی زندگی پر ترقی پذیر ممالک کے شہری رشک کرتے ہیں۔ افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے بھی ہزاروں تارکین وطن مختلف راستوں سے یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کریں کہ آپ بطور پناہ گزین استنبول میں مقیم ہیں اور آپ کو سویڈن کے علاقے گوتھنبرگ جانا ہے، استنبول سے گوتھنبرگ جانے کا 4020 کلومیٹر طویل سفر زمینی اور سمندری راستے پر مشتمل ہو گا۔ اس پر خطر سفر کے لیے آپ کو تین سے چار ہزار یورو انسانی سمگلر کو دینا ہوں گے۔ آپ استنبول سے ترکی کے ساحلی شہر ازمیر پہنچیں گے، ازمیر سے یونان کے جزیرے آگاتھونیسی پہنچنے کے لیے کشتی کے ذریعے 10 میل کا سفر طے کرنا ہو گا۔

پڑھیے: ساحل پہ کھڑے ہو، تمہیں کیا غم!

آگاتھونیسی سے آپ یونان ہی کے اگلے جزیرے ساموس پہنچیں گے۔ ساموس سے سمندر ہی کے راستے ایتھنز اور ایتھنز سے خشکی کے راستے آپ کو مقدونیہ کی سرحد تک پہنچنا ہو گا۔ مقدونیہ سے بس کے ذریعے سربیا کے سرحدی قصبے پریسیوو میں داخل ہوں گے۔ پریسیوو سے بس ہی کے ذریعے سربیا کے دارالحکومت بلغراد پہنچیں گے۔ بلغراد سے ہنگری پہنچیں گے جہاں سے یورپی یونین کے شینجین علاقے کا آغاز ہوتا ہے۔

ہنگری میں غیر قانونی طور پر داخل ہونا بھی انتہائی کٹھن مرحلہ ہوگا، لیکن اگر آپ ہنگری میں داخل ہو جائیں تو آپ کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا پہنچنا ہوگا۔ آسٹریا سے ڈنمارک، ڈنمارک اور سویڈن کی سرحد کے درمیان آبنائے اوریسند حائل ہے جس پر کسی بھی قسم کی چیکنگ نہیں ہے۔ یہاں سے ٹرین دونوں ملکوں کے درمیان نہر کے اوپر بنے پل پر چڑھ جاتی ہے اور یوں خطرات سے بھرپور کم از کم پندرہ دنوں کے سفر کے بعد آپ سویڈن داخل ہو سکیں گے۔

اب واپس ذرا عبداللہ کی کہانی پر آئیے۔ عبداللہ اپنی بیوی ریحانہ سے کہتا ہے کہ سمندری سفر ہی ان کے لیے 'واحد راستہ' بچا ہے جس سے وہ یورپی ممالک جیسے سویڈن یا جرمنی میں بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ وہ انسانی سمگلر سے رابطہ کرتا ہے، انسانی سمگلر اسے ترکی کے ساحل بودرم سے یونان کے جزیرے کوس تک پہنچانے کے لیے چار ہزار یورو وصول کرتا ہے۔ ریحانہ سمندری سفر سے خائف رہتی تھی، اسے گہرے پانیوں سے ڈر لگتا تھا، وہ تیرنا نہیں جانتی تھی، لیکن شوہر کی خواہش اور بچوں کے روشن مستقبل کے لیے اس نے بحیرہ روم کی موجوں میں اترنے کا فیصلہ کر لیا۔

دیکھیں: شامی پناہ گزینوں کی مزید تصاویر

کوس، بودرم کے ساحل سے مغرب کی جانب ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک خوبصورت یونانی جزیرہ ہے۔ کوس کی تاریخ ڈھائی ہزار سال سے بھی پرانی ہے۔ سلطنتِ روم کی باقیات سے لے کر ساتویں صدی کے وسط میں مسلمانوں کی اس جزیرے پر آمد تک، سلطنت عثمانیہ کی چار سو سالہ حکومت سے لے کر، اطالوی آثار قدیمہ تک، جرمن فوجوں کے تسلط سے لے کر برطانیہ کے زیر اقتدار آنے تک، کوس دنیا کے ان چند علاقوں میں سے ایک ہے جہاں مختلف زمانوں کی تہذیبوں اور فن تعمیر کا اختلاط ملتا ہے۔

قبل از مسیح میں بھی کوس میں سڑکیں، میونسپلٹی اور شہری منصوبہ بندی کا نظام موجود تھا۔ مارکیٹیں، اسٹیڈیم، تھیٹر اور جمنازیم موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہرکولیس نے کوس کے بادشاہ پر فتح حاصل کی تھی اسی لیے کوس کے باشندے ہرکولیس کی پوجا بھی کرتے رہے۔ مصر کا بادشاہ ’’بطلیموس دوئم،، کوس ہی میں پیدا ہوا تھا۔ عظیم یونانی فلسفی اور علوم طب کا بانی بقراط بھی کوس ہی میں پیدا ہوا۔

2 ستمبر، بدھ کے روز، عبداللہ کردی مختصر زادِ سفر، اہلیہ ریحانہ، دونوں بیٹوں تین سالہ ایلان اور پانچ سالہ غالب کے ہمراہ رات گئے بودرم کے ساحل پر پہنچا۔ 12 لوگ چھوٹی کشتی میں سوار ہوئے۔ عبداللہ نے اپنی بہن تیما کردی کو بدھ کی صبح تین بجے موبائل پر میسج کیا کہ وہ کوس کے لیے بودرم کے ساحل سے روانہ ہو رہے ہیں لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ بودرم سے کوس تک تقریباً 25 کلومیٹر کا سفر عبداللہ کے خاندان کا آخری سفر بننے جا رہا تھا۔

کشتی پانی میں اتری اور چند منٹوں کے بعد اونچی اور تیز لہروں پر ہچکولے لینے لگی۔ کشتی کے کپتان نے جب خود کو بے بس دیکھا تو وہ جان بچانے کے لیے سمندر میں کود گیا۔ ہچکولے کھاتی کشتی کو عبداللہ بچانے کی کوشش کرتا رہا۔ کشتی تو قابو میں نہ آ سکی لیکن جب عبداللہ نے بیوی بچوں کو بانہوں میں تھامنا چاہا تو تیز لہریں ان کے جسموں کو بے جان کر چکی تھیں۔ عبداللہ نے بھرپور کوشش کی کہ وہ اپنے بچوں اور موت کے درمیاں حائل رہ سکے لیکن ذات ایزدی کو یہی منظور تھا کہ عبداللہ کا پورا خاندان اپنی زندگی بحیرہ روم کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دے۔

پڑھیے: دشمن بھی دیکھ کے جس کو غمناک ہوگئے

عبداللہ تیر کر کنارے تک پہنچ تو گیا لیکن زندگی لہروں کے درمیان چھوڑ آیا، بظاہر تو یہ ایک بڑا حادثہ تھا ہی لیکن یہ ایک انسانی المیہ نہ بن سکا۔ کشتی کا درجن بھر انسانوں کے ساتھ ڈوب جانا انسان کی مظلومیت میں ایک خاموش باب کے طور پر رقم ہو گیا۔ بین الاقوامی برادری نے مظلومیت کی اس کتاب کا صفحہ الٹ دیا اور عبداللہ کردی زندگی کے زندان کی دیواروں سے سر پٹخنے لگا۔

لیکن قدرت ایک بڑے انسانی حادثے کی پرورش کر رہی تھی اور اس حادثے کا آغاز اس وقت ہوا جب بحیرہ روم نے عبداللہ کے تین سالہ بیٹے ایلان کی لاش اگل کر بودرم کے ساحل کی ریت پر اوندھے منہ لٹا دی۔ اس کے نرم و نازک رخسار ساحل کی گرم ریت پر رکھے تھے۔ اس سرخ پوش بچے نے دنیا بھر کی آنکھوں میں غم و غصے کی سرخی اتار دی، اور وہ عالمی طاقتیں اور انسانیت کے چیمپیئن جو شام کے بحران، 40 لاکھ مہاجرین اور ڈیڑھ کروڑ شامیوں کے مستقبل سے لا تعلق ہو چکے تھے، ایلان کی موت نے انہیں پناہ گزینوں کے بارے میں فکرمند ہونے پر مجبور کر دیا۔

عالمی رہنماؤں کو دنیا بھر سے ملامتی پیغامات موصول ہونے لگے، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو فوری طور پر سو ملین پاونڈز اضافی امداد کا اعلان کرنا پڑا، یوں برطانیہ کی شامی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد کا کل حجم ایک ارب پاونڈز تک جا پہنچا۔ عالمی اولمپک کمیٹی کو بھی ہنگامی طور پر امدادی فنڈ قائم کرنا پڑا، کینیڈا میں اتخابی مہم جاری ہے لیکن ایلان نے کینیڈا کی انتخابی مہم کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔

آج آپ ذرا عالم اسلام کی بے بسی، خستہ حالی، اور ٹوٹ پھوٹ کا حال ملاحظہ کیجیے۔ جس کوس تک پہنچنے کے لیے شام کے اس کردی مسلمان خاندان کو غریب الوطنی سہنا پڑی، غیروں کی دہلیز پر زندگی کی بھیک مانگنا پڑی، حتیٰ کہ زندگی کو لہروں کے حوالے کرنا پڑا، سولہویں صدی کے اوائل میں ترکوں نے اسی کوس کو فتح کیا تھا اور چار سو سال تک یہ ترکوں کی سلطنت کا حصہ رہا۔ سلطنت عثمانیہ کے افسر ابراہیم آفندی کی تعمیر کی گئی مسجد آج بھی کوس میں موجود ہے۔ آپ لوزیاس کے علاقے میں حسن پاشا کی بنائی ہوئی مسجد دیکھ سکتے ہیں اور سولہویں صدی کے اواخر میں کوس کے علاقے دیاگورا میں تعمیر ہونیوالی قدیم مسجد کے کچھ آثار آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

جانیے: شامی مہاجرین یورپی عیسائیت کیلئے خطرہ؟

ساحل پر پڑی تین سالہ بچے کی لاش امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہے۔ ایلان ہمارے سخت جان جسموں میں جھرجھری پیدا کر رہا ہے اور ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ ہم پستی، تنزلی اور پسماندگی کی کس اتھاہ گہرائی تک گر چکے ہیں کہ ہمارے عبداللہ، ہمارے غالب، ہمارے ایلان اور ہماری ریحاناؤں کو اسلامی دنیا میں کہیں جائے پناہ نہیں مل سکتی۔

جب ترکی کے خبر رساں ادارے 'دوگان نیوز ایجنسی' کی فوٹوگرافر نیلوفر دیمیر نے بودرم کے ساحل کی ریت پر پڑے اس مردہ بچے کی تصویر کھینچی تو اس تصویر نے عالمی برادری کی مردہ تصویروں میں زندگی پھونک دی۔ نیلوفر دیمیر کہتی ہے کہ جب اس نے بچے کی لاش دیکھی تو اس کے جسم میں خون جم سا گیا۔ وہ رات بستر پر دراز ہو تو گئی لیکن اس کی آنکھیں بودرم کے ساحل پر ٹھہر سی گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایلان نے صرف نیلوفر دیمیر کا ہی نہیں بلکہ ساتوں براعظموں میں بسنے والے سات ارب انسانوں کا خون جما دیا!

تبصرے (3) بند ہیں

SMH Sep 10, 2015 01:55pm
عالمی رہنماؤں کو دنیا بھر سے ملامتی پیغامات موصول ہونے لگے، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو فوری طور پر سو ملین پاونڈز اضافی امداد کا اعلان کرنا پڑا، یوں برطانیہ کی شامی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد کا کل حجم ایک ارب پاونڈز تک جا پہنچا۔ عالمی اولمپک کمیٹی کو بھی ہنگامی طور پر امدادی فنڈ قائم کرنا پڑا، کینیڈا میں اتخابی مہم جاری ہے لیکن ایلان نے کینیڈا کی انتخابی مہم کا رخ اپنی جانب موڑ لی ا۔"" اور ھم پھر بھی سوتے رہے""،،
MUHAMMAD AYUB KHAN Sep 10, 2015 05:08pm
ساحل پر پڑی تین سالہ بچے کی لاش امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہے۔ ایلان ہمارے سخت جان جسموں میں جھرجھری پیدا کر رہا ہے اور ہمیں یہ احساس دلا رہا ہے کہ ہم پستی، تنزلی اور پسماندگی کی کس اتھاہ گہرائی تک گر چکے ہیں کہ ہمارے عبداللہ، ہمارے غالب، ہمارے ایلان اور ہماری ریحاناؤں کو اسلامی دنیا میں کہیں جائے پناہ نہیں مل سکتی۔ THESE PEOPLE ARE DANGER FOR OUR RICH MIDDLE EAST MUSLIM KINGDOMS AS WELL. THAT IS WHY THEY ARE NOT ALLOWED THERE AS WELL. THEY HAVE TO FIGHT, DIE OR BEG TO MAKE LIVELIHOOD. EVERY STREET IN LEBANON, JORDAN AND TURKEY IS FILLED WITH BEGGARS FROM SYRIA. THERE IS NO ALTERNATIVE. THERE IS NOTHING BY THE NAME OF ISLAMIC WORLD IN PRACTICE. PEOPLE ARE ARABS OR NON ARABIC SPEAKING MUSLIMS MOST OFTEN CALLED AJAMI. ISLAMIC CONFERENCE IS A BASELESS ORGANISATION DOING NOTHING.
NOMAN SHAH Sep 12, 2015 02:02am
ان پر نثار محفل_ ہستی کی رونقیں اے دوست! میکدے میں جو تنہائیاں ملیں! ہر تجربے میں ساغر مے کا جواز ہے ہر فلسفے میں زلف کی گہرائیاں ملیں!