ایک دفعہ میرے ایک کولیگ نے مجھ سے پوچھا: 'کیا تم مان سکتی ہو کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی جگہ پر ایک ساتھ عبادت کر سکتے ہیں؟'

اور ظاہر ہے میرا جواب بھی وہی تھا جو آپ کا ہوگا: 'بالکل بھی نہیں، خاص طور پر پاکستان میں تو بالکل بھی نہیں۔'

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، 'ایک ایسی جگہ ہے، اور وہ یہاں سے بہت زیادہ دور نہیں۔'

اور ان کی اسی بات کی تصدیق کرنے کے لیے میں آخرکار جھولے لال کے مزار پر جا پہنچی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی سخت گیر مذہبی فطرت کے باوجود ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں پر مذہبی ہم آہنگی کی صدیوں پرانی روایات اب بھی قائم ہیں۔ جھولے لال کا مزار بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے۔

مرکزی گنبد.
مرکزی گنبد.
مزار کا سامنے کا حصہ.
مزار کا سامنے کا حصہ.

یہ اپریل کا ایک گرم دن تھا، مگر ٹھنڈی ہوا نے سفر کو قابلِ برداشت بنا رکھا تھا۔ ہم جھولے لال کے مزار پر پہنچے۔ اُڈیرو لال، جہاں پر مزار واقع ہے، سندھ کے ضلع سانگھڑ سے 40 کلومیٹر دور ہے۔ یہ ایک خاموش طبع شہر ہے جس کے بیچوں بیچ یہ مزار قائم ہے۔

مزار کے اطراف خوانچہ فروش کھانے پینے کی مختلف اشیاء فروخت کر رہے تھے، جبکہ لوگ ڈھابہ طرز کے ہوٹلوں میں چائے پی رہے تھے۔ ایک ریڈیو تیز آواز میں سندھی لوک نغمے بکھیر رہا تھا۔ گھر چھوٹے اور گلیاں تنگ تھیں لیکن ہمیں مزار تک پہنچنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی کیونکہ یہاں ہر شخص کو مزار کا راستہ اپنے گھر کے راستے کی طرح یاد تھا۔

مزار کے سفید گنبد آسمان پر کافی فاصلے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم مزار میں داخل ہوئے تو اسے مکمل سفید رنگ می رنگا ہوا پایا۔ فصیل کی طرز کی اس کی دیواریں کسی قدیم قلعے کی یاد دلا رہی تھیں۔

اندرونی حصہ جو نسبتاً نیا ہے، ایک خوبصورت تعمیر ہے جس میں دروازوں وغیرہ پر نہایت خوبصورت لکڑی کا کام کیا گیا ہے۔ بزرگ کے غائب ہونے کی یاد میں ایک سالانہ میلے اور عرس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں اور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ایک کمرہ ہے جس میں بزرگ سے منسوب جوتیاں رکھی گئی ہیں۔

ایک طاق میں دو کبوتر آرام کر رہے ہیں.
ایک طاق میں دو کبوتر آرام کر رہے ہیں.
مرمتی کام کی یادگار تختی.
مرمتی کام کی یادگار تختی.
مزار کو جانے والی ایک خوبصورت راہداری.
مزار کو جانے والی ایک خوبصورت راہداری.
اندرونی حصے کو لے جانے والا دروازہ.
اندرونی حصے کو لے جانے والا دروازہ.
جوتیوں کی جگہ کی نشاندہی کرتا بورڈ.
جوتیوں کی جگہ کی نشاندہی کرتا بورڈ.
کہا جاتا ہے کہ بزرگ نے یہ جوتے پہنے تھے.
کہا جاتا ہے کہ بزرگ نے یہ جوتے پہنے تھے.

جھولے لال کی نسبت دریائے سندھ سے ہے اور انہیں دریاؤں کے بھگوان 'ورون' کا سندھ میں آنے والا اوتار قرار دیا جاتا ہے۔

زیادہ تر مسلمان انہیں حضرت خواجہ خضر قرار دیتے ہیں، جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ دریاؤں اور سمندروں میں سفر کرنے والوں کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ مچھیرے (جنہیں سندھی میں مہانڑے یا ملاح کہا جاتا ہے) بزرگ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ انہیں زندہ پیر، شیخ طاہر، خواجہ خضر، اُڈیرو لال، اور امر لال بھی کہا جاتا ہے۔

کالونیل دور کے مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق یہ بزرگ یہاں پر سترہویں صدی میں رہا کرتے تھے۔ ٹھٹہ کے ظالم حکمران میرکھ شاہ نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کرنا چاہا تو ہندو دریائے سندھ کے کنارے گئے، اپواس کیا، اور دریا سے مدد مانگی کہ وہ انہیں نجات دلائے۔

نتیجتاً دریا میں ایک صورت واضح ہوئی جس نے بتایا کہ نصرپور کے ایک عمر رسیدہ جوڑے کو ایک بیٹا ہوگا، جو ان کی مدد کرے گا۔

اس بچے کا نام اُڈیرو لال رکھا گیا اور انہیں 'جھولے لال' کا لقب بھی دیا گیا کیونکہ مانا جاتا ہے کہ ان کا جھولا خود بخود ہلتا تھا۔ یہ بچہ بڑا ہو کر ایک بہادر شخص بنا جس نے میرکھ شاہ سے بحث کی، اور اسے اس کی غلطی کا احساس دلایا، جس پر اس نے ہندوؤں کو اپنی حکومت میں آزادی سے رہنے کی اجازت دے دی۔

گھنٹیوں کو دن کے مختلف اوقات میں بجایا جاتا ہے.
گھنٹیوں کو دن کے مختلف اوقات میں بجایا جاتا ہے.
ایک پوسٹر میں جھولے لال کو پلہ مچھلی پر سوار دکھایا گیا ہے.
ایک پوسٹر میں جھولے لال کو پلہ مچھلی پر سوار دکھایا گیا ہے.
مندر میں دیے جل رہے ہیں.
مندر میں دیے جل رہے ہیں.
اندر موجود ایک جھولا.
اندر موجود ایک جھولا.

ہم اندر داخل ہوئے تو ایسا محسوس ہوا جیسے امن و سکون نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہو۔ ٹائل کا فرش کافی ٹھنڈا تھا لہٰذا ہم زمین پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ مزار کے اندر فضا معطر تھی اور تیل کے دیے دیواروں پر سائے بنا رہے تھے، جن سے کمرے میں پیلی سی روشنی تھی۔

جھولے لال کی تصویر کشی بسا اوقات پلہ مچھلی (دریائے سندھ کی مقامی مچھلی) پر بیٹھے ہوئے یا گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کی جاتی ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ وہ اور ان کا گھوڑا ایک کنویں میں غائب ہو گئے اور اب اسی جگہ ان کا مزار قائم ہے۔

اس دن سے مزار ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے مرجع خلائق بن چکا ہے۔ اُڈیرو لال میں واقع اس مزار میں ایک مندر اور ایک مسلم طرز کا مقبرہ ہے، جبکہ اس کے رکھوالوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ شام کے وقت ہندو یہاں پوجا کرتے ہیں اور آرتی اتارتے ہیں جبکہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔

یہ گھنٹی پوجا کے وقت بجائی جاتی ہے.
یہ گھنٹی پوجا کے وقت بجائی جاتی ہے.
درخت پر باندھے گئے کپڑے.
درخت پر باندھے گئے کپڑے.

صحن میں لوگوں نے منتوں مرادوں کے لیے ایک درخت پر رنگ برنگے دھاگے اور کپڑے باندھ رکھے تھے جنہیں صرف تب اتارا جاتا ہے جب منت پوری ہوجاتی ہے۔ مراد بر آنے پر عقیدت مند مزار کے لیے تحفہ لاتے ہیں جو عام طور پر چھوٹا سا جھولا ہوتا ہے۔

واپس روانہ ہونے سے قبل ہم نے بھی دعا مانگی کہ ہمارے معاشرے میں امن اور بھائی چارے کی قدیم روایت واپس لوٹ آئے۔

یہ مزار سندھی معاشرے کی رواداری کی عکاس آخری جگہوں میں سے ہے جسے اب کچھ عناصر سے خطرہ ہے۔ ہماری صوفی اقدار کا ریاستی سطح پر پرچار ہونا چاہیے تاکہ ہمیشہ سے ہماری سرشت میں شامل انسان دوستی اور مذہبی ہم آہنگی واپس آ سکے۔

صحن کا منظر.
صحن کا منظر.

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں.

تبصرے (8) بند ہیں

Waseem Sep 16, 2015 04:00pm
Good Job Zahida. Religious tolerance and has been a tradition of our dharti. Have a glance on following line of Saleem Ali Singhar. کہیں آقا، کہیں مولا، کہیں ہے رام قلندر Hope you have handed over my book to your library.
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 16, 2015 06:39pm
مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں دوریاں تقسیم کے بعد پیدا ہوئیں۔ یہ دوریاں پیدا کرنا ان لوگوں کی مجبوری تھی جن کی ہانڈی روٹی لاؤڈ سپیکر پر چلتی تھی۔ جب تقسیم ہو گئی تو لاؤڈ سپیکر صاحب کو ہانڈی روٹی کی فکر پڑ گئی کیونکہ پاکستان میں تمام تر مسلمان تھے اور ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی گنتی پر گنے جا سکتے تھے۔ یوں لاؤڈ سپیکر کو اپنا مخالف تراش کرنا مشکل ہو گیا جو کہ تقسیم سے پہلے بہت آسانی سے مل جاتا تھا۔ لاؤڈ سپیکر مافیا کی ہی یہ تگ و دود تھی کہ مسلمانوں ہی کے ایک فرقے کو غیرمسلم قرار دے دیا گیا اور آئین اور قانون میں بھی انہیں غیرمسلم قرار دیا گیا۔ اس مافیا نے اپنی دال روٹی چلانے کا روڈ میپ ایجاد کر لیا اور اس روڈ میپ میں گرمی پیدا کرنے کے لیے وقتآ فوقتآ تمام اقلیتوں کو رگڑا لگانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے کو عوام کے جذبات کو ابھارنے اور انہیں گرم رکھنے کے لیے رکنے نہ دیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سلمان تاثیر، آسیہ بی بی، شیری رحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کیسز اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ ابو جی بتاتے ہیں کہ وہ بچپن میں جب امرتسر رہتے تھے تو سکھ اور مسلمان دونوں بھائی چارے کا مثالی نمونہ تھے۔
Hassan Sep 16, 2015 07:37pm
Very Nice Can any one tells me That it s a different person from Shbhaz Qalander from Shewan ?
mansoor Sep 17, 2015 01:19am
@نجیب احمد سنگھیڑہ janab ap ka kalam par kar ap ka kam elam ho na ka andaza ho wa ,pakistan banai kai doran jitna noqsan sikh na muslim ka kia itan kisi na nahi kia ja bhi wo log zinda han jo apni bachion ,biwi ,bitiuon marta ho dekh kar ya d kar tai hain .kash muslman haqiqat pasand ho jai tu sab thikh hu jai .
Ramesh Jaipal Sep 17, 2015 10:33am
Great Work......
Zeeshan Khan Sep 17, 2015 12:36pm
@Hassan Yes he is different one, Shahbaz Qalander buried in Sehwan located in district Jamshoro, he was a Sufi philosopher-poet
Wajahat Sep 17, 2015 12:40pm
زیرِ نظر مضمون میں امن، برداشت اور بھائی چارہ کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ھے جو بلاشبہ ایک اچھی اور قابلِ ستائش کاوش ھے، تاہم پاکستانی معاشرہ کی جس نام نہاد سخت گیری اور تنگ نظری کا ذکر ابتدا میں کیا گیا ھے وہ نرا میڈیا کا پھیلایا ھوا بے بنیاد پرپیگینڈہ ھے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پاکستانی معاشرہ میں نہ صرف بین المذاہب تعصب بلکہ نسلی تعصب بھی دنیا کے دیگ ممالک، خصوصاََ پڑوسی ممالک سے کہیں کم ھے۔ اگر مصنفہ کو اس سے اتفاق نہیں تو بذات خود اس کا مشاہدہ بلا تفریق وتعصب کیا جاسکتا ھے۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Sep 17, 2015 10:22pm
@mansoor تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ سکھوں کا دماغ خراب نہیں ہو گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام خوامخواہ میں شروع کر دیتے۔ ننکانہ صاحب اور لائلپور میں سکھوں کی املاک کو جلایا گیا، ان کی فصلوں کا آگ لگا دی گئی، ان کا قتل عام کیا گیا۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اس لیے بھارتی پنجاب میں سکھوں نے مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کیے اور قتل و غارت گری کی۔ صرف سکھوں کو قتل عام ٹھہرانا تاریخ کو مسخ کرنے ہی کی ایک کڑی ہے اور اس کے تحت نظریہ پاکستان کو لوہے کی طرح مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔