'میرے استعفے سے سب ٹھیک ہو جائے گا؟'

13 نومبر 2015
ریسکیو اہلکار لاہور کی منہدم ہونے والی فیکٹری میں سے زخمی شخص کو نکال رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔
ریسکیو اہلکار لاہور کی منہدم ہونے والی فیکٹری میں سے زخمی شخص کو نکال رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔
رومانیہ کے سابق وزیرِ اعظم وکٹر پونٹا عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2015۔ — رائٹرز۔
رومانیہ کے سابق وزیرِ اعظم وکٹر پونٹا عدم اعتماد کے ووٹ سے قبل پارلیمنٹ سے خطاب کر رہے ہیں۔ 29 ستمبر 2015۔ — رائٹرز۔

رومانیہ جنوب مشرقی یورپ کا ایک چھوٹا سا مگر انتہائی خوبصورت ملک ہے۔ رومانیہ کا دارالحکومت بخارسٹ ہے۔ تیس اکتوبر جمعے کی رات کو بخارسٹ کے کولیکٹو نامی نائٹ کلب میں چار سو افراد راک موسیقی سے محظوظ ہونے کے لیے جمع تھے۔

کنسرٹ کے دوران حادثاتی طور پر کلب میں آگ لگ گئی۔ آگ لگنے سے افراتفری اور بھگڈر مچ گئی۔ کلب کے ہال میں دھواں بھرنے لگا۔ دم گھٹنے اور بھگدڑ کے باعث لوگ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گرنے لگے۔ باہر نکلنے کے لیے صرف ایک راستہ تھا۔ ہال کو آگ اور دھوئیں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یوں 32 افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔

تیس اکتوبر کو یہ واقعہ پیش آتا ہے اور ادھر تین نومبر کی شام بیس ہزار لوگ بخارسٹ کی گلیوں میں نکل آتے ہیں۔ مظاہرین رومانیہ کا جھنڈا لہراتے ہوئے وزیر اعظم وکٹر پونٹا کے خلاف "تم قاتل ہو"، "تمہیں شرم آنی چاہیے"، اور "کرپشن جانیں لیتی ہے" جیسے نعرے لگانے لگتے ہیں، حالانکہ یہ کلب نہ تو وزیر اعظم وکٹر پونٹا کی ملکیت تھا اور نہ ہی ان کی کابینہ کے کسی وزیر کی ملکیت۔ نہ تو ریاستِ رومانیہ اس کلب کو چلانے کی ذمہ دار تھی اور نہ ہی اس پر عوام کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کیا جا رہا تھا۔

کلب میں آگ لگی بھی حادثاتی طور پر تھی۔ آگ لگنے سے لے کر بتیس لوگوں کی اموات تک، کہیں بھی وزیر اعظم وکٹر پونٹا یا ان کی حکومت براہ راست ملوث یا ذمہ دار نہیں تھی، لیکن ناکافی حفاظتی اقدامات سے لے کر سست امدادی سرگرمیوں تک کے لیے اداروں کی کرپشن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بیس ہزار مظاہرین نے وزیر اعظم وکٹر پونٹا، وزیر داخلہ گیبریئل اوپرا اور شہر کے میئر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔

رومانیہ کے صدر کلوز آیوہانس نے وزیر اعظم سے کوئی مک مکا یا این آر او کرنے کے بجائے دو ٹوک انداز میں کہا "میں سمجھتا ہوں مظاہرین کا مطالبہ درست ہے۔ کسی کو تو اس سانحے کی سیاسی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاستدانوں کو عوام کے دلوں میں پکنے والے غصے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔"

کیا ہوا اگر بتیس لوگ کسی اتفاقی حادثے میں مارے ہی گئے؟ جو ریاست عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دن رات کام کر رہی ہو، اگر وہاں ایک حادثہ ہو ہی گیا تو کون سا آسمان گر رہا تھا؟ جہاں لوگوں کو تعلیم، صحت، انصاف، معیار زندگی اور روزگار تک سب کچھ مل رہا ہو وہاں کے لوگ کیوں سڑکوں پر آ جاتے ہیں؟ کیوں؟ کیونکہ جدید جمہوری فلاحی ریاست میں نااہلی اور ذمہ داری سے غفلت برتنے پر عوام معاف نہیں کیا کرتے اور رومانیہ کے عوام نے بھی اپنے وزیر اعظم کو معاف نہیں کیا۔

منگل کو لوگوں نے احتجاج شروع کیا تو وزیر اعظم نے عوام کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے اگلے ہی روز اعلان کیا، "میں اعتراف کرتا ہوں کہ لوگوں کی شکایات درست ہیں، لہٰذا میں مستعفی ہوتے ہوئے حکومت کو تحلیل کر رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ میرے اور میری حکومت کے استعفی سے لوگوں کے غصے میں کمی آئے گی۔"

وزیر اعظم کے فیصلے کے بعد شہر کے میئر نے بھی خود کو اخلاقی طور پر مجرم سمجھتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اخلاقی معیار اور اصولوں کی مثال ہمیشہ اوپر سے ہی قائم کی جاتی ہے۔ ادھر وزیرِ اعظم نے استعفیٰ دیا، ادھر ادارے فوراً حرکت میں آئے۔ کسی کو ضمانتوں اور تاریخوں کی اوٹ میں چھپنے نہیں دیا گیا۔ کسی کو ملک سے باہر بھاگنے نہیں دیا گیا۔ کلب کے تین مالکان کو حراست میں لے لیا گیا، ان پر لوگوں کو قتل کرنے کی دفعات لگائی گئیں کیونکہ آگ لگنے کی صورت میں کلب میں حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔

اب آپ ذرا پاکستان اور اس کے باسیوں کی بے بسی دیکھیے کہ جس وقت رومانیہ کا وزیر اعظم سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے رہا تھا، اس وقت لاہور کے انڈسٹریل ایریا میں ایک فیکٹری کی چھت گر رہی تھی۔ ملبے تلے دو سو سے زائد لوگ دب گئے تھے۔ پچاس سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے۔ پانچ دن تک لاشیں نکلنے اور مبلہ اٹھانے کا کام جاری رہا۔

70 سال کے بعد بھی ریاستِ پاکستان کہاں کھڑی ہے، آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ عمارت صرف چار منزلہ تھی اور یہ ملک کے کسی دور دراز، دشوار گزار اور پسماندہ علاقے میں نہیں بلکہ ملک کے دوسرے بڑے شہر میں گر رہی تھی، لیکن امدادی کاموں کے لیے چھ اضلاع سے ریسکیو ٹیمیں اور مشینری منگوانا پڑی۔ فوج کو مدد کے لیے طلب کرنا پڑا لیکن پھر بھی پانچ دن سے زائد کا وقت لگ گیا۔ اگر یہی عمارت نو سے دس منزلہ ہوتی یا صوبائی دارالخلافہ کے بجائے کسی چھوٹے یا دور دراز شہر میں ہوتی تو ہماری ریاست کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے۔ کئی زندہ بچ جانے والے پتھر کی سلوں اور ملبے کے ڈھیر تلے مارے جاتے اور امدادی آپریشن ہفتوں جاری رہتا۔

یہ حادثہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی عمارتوں کے گرنے اور آگ لگنے کے چھوٹے بڑے ہزاروں واقعات ہو چکے ہیں۔ ستمبر 2014 میں انارکلی لاہور میں پلازہ میں آگ لگنے سے 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ستمبر 2014 میں ہی لاہور میں مسجد کی چھت گرنے سے 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اگست 2009 میں کراچی کی لی مارکیٹ میں عمارت گرنے سے 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ فروری 2012 میں لاہور میں تین منزلہ کارخانے کی عمارت کے انہدام سے 21 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ ستمبر 2012 میں بلدیہ ٹاؤن کراچی کی ایک فیکٹری میں بدترین آتشزدگی سے 250 سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ ستمبر 2012 میں لاہور میں جوتے بنانے کی فیکٹری میں آتشزدگی سے 21 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ دسمبر 2014 میں کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی سے 250 سے زائد دکانیں، 50 گودام، 18 رہائشی عمارتیں جل کر خاکستر اور اربوں روپے کی لکڑی جل گئی تھی۔

مئی 2013 میں ایل ڈی اے پلازہ لاہور میں آگ لگ گئی تھی، لوگ عمارت کی کھڑکیوں میں آ کھڑے ہوئے، پیچھے مڑ کر دیکھتے تو آگ کے خوفناک شعلے اٹھ رہے تھے، کھڑکی سے باہر جھانکتے تو موت گہرائی میں دامن پھیلائے کھڑی تھی۔ لوگوں نے جل کر مرنے سے بہتر جانا کہ وہ اونچی عمارت سے کود جائیں۔ تصور کیجیے کہ موت کا وہ احساس کتنا بھیانک اور زندگی کی وہ آخری سانسیں گلے میں کانٹوں کی طرح چبھ رہی ہوں گی۔

آتشزدگی کے اس بھیانک واقعے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ نہ تو کبھی کسی نے استعفی دیا، نہ ذمہ داروں کو عبرتناک سزا دی گئی، اور نہ ہی ریاست ان جیسے ہزاروں واقعات کے بعد اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھی کہ ہم موت پر قابو تو نہیں پا سکتے، لیکن ہم اپنے شہریوں کو یوں آگ میں جھلس کر اور عمارتوں کے ملبے تلے دب کر مرنے سے کیسے بچا سکتے ہیں ؟

سندھ حکومت تو اس دنیا میں بستی ہی نہیں اور پنجاب میں ہر مسئلے کا حل صرف معطلی یا حکمرانوں کی "آنیاں جانیاں" ہی رہ گیا ہے۔ اگر شہباز شریف پنجاب حکومت کے درجہ چہارم سے لے کر 22 ویں گریڈ کے افسران تک ساری حکومتی مشینری کو سو بار معطل کر کے اور سو بار بحال بھی کر دیں، اگر وہ ہر روز پچاس ساٹھ عدالتی کمیشن یا جے آئی ٹیز بنانے کا اعلان کر دیں، اگر وہ آئی جی پنجاب، چیف سیکریٹری اور پوری کابینہ کے ہمراہ روزانہ صبح سے شام تک پنجاب کے 36 اضلاع کا دورہ بھی کرنے لگیں اور اگر وہ دس بار اور بھی وزیر اعلیٰ منتخب کیوں نہ ہو جائیں، تب بھی پنجاب میں اسی طرح مائیں بچوں کو اسپتال کی سیڑھیوں یا رکشوں میں جنم دیتی رہیں گی، عمارتیں گرتی رہیں گی، آگ لگنے سے لوگ جھلس جھلس کر مرتے رہیں گے، اور عورتیں انصاف نہ ملنے پر تھانوں کے سامنے خود کشیاں کرتی رہیں گی کیونکہ مسائل کا حل یہ ہے نہیں بلکہ حل ادارہ جاتی اصلاحات، گلے سڑے، بوسیدہ نظام سے نجات، طرز حکمرانی کے جدید اصولوں پر عملدرآمد اور وسائل کا رخ انسانی ترقی کی طرف موڑنے میں ہے۔

آئیے اب ذرا واپس چلتے ہیں رومانیہ میں ہونے والی اموات پر۔ مجھے بخارسٹ کے اس سارے واقعے میں نہ تو لوگوں کے احتجاج نے متاثر کیا اور نہ ہی صدر کی جانب سے وزیرِ اعظم کو دو ٹوک پیغام نے۔ مجھے نہ تو وزیر اعظم اور اس کی حکومت کے استعفوں نے متاثر کیا اور نہ ہی ملزموں کی فوری گرفتاری نے۔ میں جس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا وہ بخارسٹ کی سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے شہریوں کا سیاسی شعور تھا۔

صحافی مظاہرین سے سوال کر رہے تھے۔ ایک صحافی نے ماریانہ نامی خاتون سے سوال کیا، "آپ کیوں احتجاج کر رہی ہیں؟" ماریانہ نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا، "کسی بھی یورپی ملک میں ہمارے بچوں کا اس طرح سے مر جانا انتہائی غیر معمولی ہے۔ اس واقعے کے بعد رومانیہ میں کسی سنجیدہ تبدیلی کی ضرورت ہے۔"

23 سالہ طالبعلم الیگزنڈر اسپاس نے تو یہ کہتے ہوئے مجھے چونکا ہی دیا "مجھے باوقار رومانیہ چاہیے جہاں ریاست کی نظر میں شہریوں کی عزت اور وقار زندگی سب سے بالاتر ہو۔" بعض لوگوں نے تو رومانیہ کے طاقتور ترین چرچ پر اس سانحے پر خاموش رہنے کی وجہ سے تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں چرچ نہیں، اسپتال چاہیئں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عوام اگر سیاسی شعور رکھتے ہوں تو وہ حکمرانوں کا محاسبہ کس طرح کرتے ہیں اور وہ انہیں ترجیحات کیسے یاد دلاتے ہیں۔

رومانیہ کے وزیراعظم نے یہ کیسا پاگل پن دکھایا ہے۔ یہ کتنا احمق وزیر اعظم ہے۔ یہ کیسا سربراہ مملکت ہے جسے یہی نہیں معلوم کہ "جمہوریت" میں ڈھیٹ ہونا پڑتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کے سامنے ہار نہیں مانی جاتی۔ جمہوریت میں ذمہ داری قبول نہیں کیا کرتے۔ جمہوریت میں گلے سڑے، بدبودار، بوسیدہ اور فرسودہ نظام کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ جمہوریت میں اصلاحات نہیں لایا کرتے۔ جمہوریت میں مک مکا کے زہر کو ہمیشہ تریاق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

جمہوریت میں احتساب کو خطرہ قرار دے کر اخلاقی اقدار کے قبرستان میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ جمہوریت میں ہر ناکامی، نااہلی اور غفلت پر "مٹی" ڈال دی جاتی ہے۔ جمہوریت میں ٹریفک حادثات، آگ لگنے اور عمارتوں کے گرنے سے ہونے والی ہزاروں اموات کو حادثہ قرار دے کر جان چھڑوا لی جاتی ہے۔ جمہوریت میں اموات کو رضائے الہٰی قرار دے کر مرنے والوں پر فاتحہ پڑھ دیا جاتا ہے۔ اور وکٹر پونٹا کو شاید کسی نے یہ نہیں سمجھایا تھا کہ جمہوریت میں استعفیٰ نہیں دیا کرتے، بلکہ کہا کرتے ہیں کہ کیا میرے استعفیٰ دینے سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

LIBRA Nov 13, 2015 05:21pm
an eye opening feature really inspiring and factual. but bitter truth is that we are a part of this senseless society or political game. we have been made so indulged in our bread and butter or basic issues that we can not think about such issues or political awareness.... yahan awam hukmarano k aish o aram ki zimay dar hy aur aawm hi marny mitny ko b tayar hy
afsar khan Nov 13, 2015 05:34pm
woh log tax pay karte hain ur hum...................only baatien
وسیم رضا Nov 13, 2015 07:16pm
پاکستان میں ٹیکس چوری نہ بھی ہو ، لوگ ٹیکس دینا بھی چاہیں تو ہمارے سیاست دان کھا جائیں گے۔
حافظ Nov 14, 2015 02:21am
You are a better writer than an anchor person!
Mohammad Salim Nov 14, 2015 09:46am
جہاں دو وقت کی روٹی پر عزت نیلام ہوتا ہو جہا ں پر ریاست کے ہر فرد کے ساتھ اپنا فکر لاحق ہو جہا ں پر اوپر سے لے کر نیچے تک سب ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہو، جہا ں پر انصاف پیسے سے ملتا ہو، جہا ں پر معاشرے کے با اثر لوگ پیسے کے بل بوتے پر حکمران ہو اور جھوٹ اور مکار ی کا دور دورہ ہو وہاں پر کیسے سیاسی شعور پیدا ہو گی۔