لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومتی ناکامی کا اعتراف

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2015
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ — فائل فوٹو
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ — فائل فوٹو

اسلام آباد: بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت صوبے میں لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل میں ناکام رہی ہے۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’جب کہ اس کی شدت میں کمی آئی ہے، لیکن مسئلہ اب بھی موجود ہے اور یہ وہ حصہ ہے جس میں ہم اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘۔

تاہم، وہ اس معاملے کی وضاحت میں محتاط رہے اور اس میں ملوث کسی بھی اتھارٹی، علاقے یا افراد کا نام لینے سے گریز کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ’مذاکرات کی کامیابی سے صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد فراہم ہوگی۔ یہاں تک کہ ہم کچھ لاپتہ افراد کی بازیابی میں بھی کامیاب ہوئے ہیں اور اس خوشگوار صورتحال سے مذاکرات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد ملی ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت کی کامیابی کا ’منصفانہ اور سادہ‘ حصہ یہ ہے کہ عسکریت پسندی میں کمی آئی ہے، بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں امن و امان کی صورت حال گذشتہ 3 سالوں کے مقابلے میں اب بہت بہتر ہے، متبادل سیکیورٹی فورسز بنانے کا رواج اب ختم ہوتا جارہا ہے اور گولیاں زدہ لاشوں کے ملنے کے سلسلے میں بھی واضح کمی آئی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ نیشنل پارٹی ناراض بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولنے میں کامیاب ہوئی ہے اور یہاں تک کہ براہمداغ بھگٹی بھی بات چیت کے لئے تیار ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنی ڈھائی سالہ حکومت کی کارکردگی کو کامیابی اور گوڈ گورنس سے تعبیر کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ حکومت کو کرپشن سے دور رکھوں اور بلوچستان حکومت پر طویل عرصے سے لگایا یہ بدنامی کا داغ اب دور ہوگیا ہے‘۔

اپنے جانشین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ کے رہنما ثناء اللہ زہری اب کشتی کے کپتان ہیں، ہم انھیں اصلاحات اور گوڈ گورنس کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، جس میں تعلیم اور صحت کے شعبے شامل ہیں‘۔

انھوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ بنیادی ڈھانچے کے مںصوبوں کے لیے فنڈننگ کی کافی حد تک کمی ہے۔

اس موقع پر نیشنل پارٹی کے چیف میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ان کی پارٹی وزیراعلیٰ بلوچستان کا عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار ہے تاہم وزیراعظم کا کہنا ہے کہ کچھ دن انتظار کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ عہدے کو چھوڑنے کے لیے ان پر ناہی کسی پارٹی، ایجنس یا دیگر کسی پریشر گروپ کا دباؤ ہے۔

یہ خبر 13 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں