ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے گذشتہ کئی سالوں میں ہولناک تشدد کے بیسیوں واقعات دیکھے تھے، اس کے لیے بھی 16 دسمبر 2014 کا دن شاہراہِ بربریت پر نصب ایک نیا اور بدترین سنگِ میل تھا۔

ہمیں اس دن معلوم ہوا کہ دہشتگرد آج تک کی اپنی تمام بھیانک کارروائیوں سے زیادہ بڑی، بھیانک اور پرتشدد کارروائی بھی کر سکتے ہیں، اور یہ کہ ہمارے بچوں کو بھی ایسی بربریت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ جس کو بیان کرنے کے لیے دنیا کی کسی زبان میں الفاظ موجود نہیں۔ اس دن آرمی پبلک اسکول پشاور کے 144 معصوموں — 122 طلبا اور 22 اساتذہ و اسٹاف کو ایک ایسے دہشتگرد حملے میں ہلاک کر دیا گیا جس نے نہ صرف ملک کو سوگوار کیا، بلکہ پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔

یہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی جنگ میں ایک فیصلہ کن گھڑی تھی۔ اس عظیم سانحے نے ہماری بے بسی کو بھی عیاں کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہمیں تبدیل بھی کیا، بھلے ہی اس طرح نہیں کہ جس سے ہم ایک پائیدار امن کی جانب جائیں۔

اس بدترین حملے پر ہمارا ردِعمل ہوشمندی کے بجائے جذبہء انتقام پر مبنی تھا۔ فوراً بعد حکومت نے سزائے موت پر عائد غیر اعلانیہ پابندی اٹھا لی اور عزم ظاہر کیا کہ صرف دہشتگردی کے مجرمان کو پھانسی دی جائے گی۔

مگر پچھلے 12 ماہ میں اب تک جو 300 سے زائد افراد کو پھانسی دی گئی ہے، اس میں سے دہشتگردی کے مجرمان صرف 20 فیصد تھے۔ انتقام انصاف دینے کی اہلیت اس لیے نہیں رکھتا کیونکہ اس کا دائرہ انتہائی وسیع ہوتا ہے۔ انصاف کے برعکس انتقام کے شکنجے میں نہ صرف مجرمان آتے ہیں (اگر سِرے سے آتے بھی ہیں تو) بلکہ پسے ہوئے اور بے یار و مددگار لوگ بھی آتے ہیں۔

خامیوں سے بھرپور پاکستان کے نظامِ انصاف کے لیے یہ بات خاص طور پر درست ہے جہاں ملزم کی دولت اور 'پہنچ' سے اس بات کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ ملزم ٹھہرایا جائے گا یا بے قصور، اسے موت کا پھندا نصیب ہوگا یا آزادی کی کھلی فضا میں سانس لینا۔ اس کے علاوہ حکومت نے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے اپنی آسانی اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو مقدم رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کا راستہ اپنایا، جن کے طریقہ کار کے بارے میں کسی کو زیادہ علم نہیں ہے۔

اس طرح ایک سال کے دوران ملک نہ صرف سزائے موت کے خلاف عالمی رائے کے خلاف گیا ہے، بلکہ اس نے شہری حقوق سے متعلق کئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔

بلاشبہ کچھ ایسے اقدامات ضرور اٹھائے گئے جن کی اشد ضرورت تھی۔ حکومت نے ایک جامع قومی ایکشن پلان کا اعلان کیا تاکہ معاشرے سے مذہبی انتہاپسندی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے۔ کئی مشتبہ مدارس بند کیے گئے ہیں، جبکہ فرقہ وارانہ تنظیموں کی قیادت کو بھی زک پہنچائی گئی ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہ ملک ایک طویل عرصے تک انتہاپسندی کی راہ پر گامزن رہا ہے، اور یہ سفر پیچیدہ اور تہہ در تہہ رہا ہے۔ اندھیروں کی جانب لے جانے والی اس راہ سے پلٹ کر ایک پر امن اور برداشت پر قائم مستقبل کی جانب جانا آسان نہیں ہوگا۔

اس کے لیے ہمارے معاشرے کو ان نظریات کو چھوڑنا ہوگا جو سخت گیر عقائد رکھنے اور عقائد کی بناء پر قتل کرنے کو نیکی کا کام بتاتے ہیں۔ یہ ایسی جنگ ہے جو ہمیں خود لڑنی ہوگی، اور اپنے لیے لڑنی ہوگی، اور ان بچوں کے لیے لڑنی ہوگی جنہوں نے 16 دسمبر 2014 کو انتہاپسندی کی راہ پر ہمارے سفر کی قیمت ادا کی۔ اگر ہم ایسا کر سکتے ہیں، تو ان ننھی جانوں کو یہ ہمارا سب سے بڑا خراجِ تحسین ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 16 دسمبر 2015 کو شائع ہوا

ڈان کا اے پی ایس حملے کی پہلی برسی پر شہدا کی یاد میں خصوصی فیچر


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں