نیو یارک : انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران کی فوج پاسداران انقلاب نے شام میں جنگ کے لیے ہزاروں افغان شہریوں کی تربیت کی جبکہ کئی افغانیوں کو جبری طور پر فوج میں شامل کیا گیا تاکہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کی فوج کے ہمراہ مخالفین سے جنگ کر سکیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق جن افغان شہریوں کو جنگی تربیت دی گئی وہ مہاجرین تھے.

اس حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر بوکیری نے کہا کہ ایران نے افغان مہاجرین سے نہ صرف شام کی جنگ میں شمولیت کے لیے مختلف مراعات کے وعدے کیے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرنے والوں کو دوبارہ افغانستان بھیجنے کی دھمکی بھی دی گئی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اس طرح کے مایوس کن انتخاب پر بہت سارے افغان نوجوانوں نے ایران سے یورپ بھاگ جانے میں عافیت جانی۔

واضح رہے کہ ایران کی جانب شام کے صدر بشار الاسد کی بھر پور حمایت کی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ یہ رپورٹس اس سے قبل بھی آچکی ہیں کہ ایران نے 'لواء فاطمیون' کے نام سے ایک فورس بنائی تھی جس میں افغانستان کی ہزارہ برادری کے افراد کی اکثریت کو شامل کیا گیا تھا، تہران کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ فورس شام اور عراق میں شہروں کو داعش سمیت دیگر شدت پسند گروہوں سے محفوظ بنائے گی۔

فرانس کے خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شام میں بھیجے گئے افغان شہریوں کو ایران نے نہ صرف ماہانہ تنخواہ کی پیشکش کی بلکہ انھیں مستقل رہائش دینے کا بھی وعدہ کیا گیا۔

ایران اس بات کی مستقل تردید کرتا رہا ہے کہ شام میں اس کے فوجی موجود ہیں،تاہم تہران یہ تسلیم کرتا ہے کہ شام میں ایران کے فوجی افسران بطور مشیر تعینات ہیں۔

رپورٹ کے مطابق شام میں ہلاک ہونے والے "رضا کاروں" کی تدفین اور جنازے تواتر کے ساتھ ایران اور افغانستان میں ہوتے آئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایران میں ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ افغان موجود ہیں، جو افغانستان میں جاری جنگ وجدل کے باعث ایران منتقل ہوئے جن میں سے صرف 9 لاکھ 50 ہزار افراد کو مہاجرین تسلیم کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ایران میں موجود کم از کم دو درجن افغانیوں کے انٹرویو کیے گئے جن میں اکثریت کو یا ان کے رشتے داروں کو ایران کی فوج نے عسکری تربیت دی جبکہ 6 افراد نے یہ بھی بتایا کہ ایرانی فورسز نے ان کو یا ان کے رشتے داروں کو تہران اور شیراز میں موجود تربیتی کیمپوں میں عسکری ٹریننگ دی۔

ان 6 افراد میں سے 2 افراد رضا کار بنے جبکہ باقی 4 کو 'زبردستی' جنگ کے لیے بھیجا گیا۔

ان افراد کا کہنا تھا کہ اس وقت افغان شہری دمشق، حلب، حمس، دیر الویز، حما، لتاکیا سمیت شام کے دیگر علاقوں میں لڑ رہے ہیں جبکہ بعض کو اسرائیل کے زیر انتظام گولان کے پہاری علاقے میں بھی بھیجا گیا ہے.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

تبصرے (0) بند ہیں