محمد نواز اور محمد اصغر کا نام اب پاکستان کے ہر گھر کیلئے جانا پہچانا ہے لیکن صرف دو ماہ قبل یہ دونوں صرف ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔

پاکستان سپر لیگ( پی ایس ایل) اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کیلئے تواتر سے فتح گر کارکردگی دکھا کر عالمی افق کر ابھر کر سامنے آئے اور پھر پورا ملک پاکستان کو ملنے والے ان نئے ستاروں کی دریافت پر خوشیاں منانے لگا۔

محمد نواز اور محمد اصغر پاکستان سپر لیگ کے پانچ کامیاب ترین باؤلرز کی فہرست میں شامل ہیں لیکن عبدالقادر کے مطابق پی ایس ایل کو ایک بڑی کامیابی قرار دیے جانے سے پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ کھیل کو درپیش مسائل کا جائزہ لے۔

پاکستان کے سابق عظیم لیگ اسپنر عبدالقادر نے کہا کہ اگر پی ایس ایل پاکستان کو شدت سے درکار پانچ اچھے بلے باز پیدا کرنے میں ناکام رہی تو اس کے انعقاد کا مقصد فوت ہو جائے گا۔

انہوں نے ڈان کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں قدرتی طور پر اچھے باؤلرز پیدا ہوتے ہیں۔ آپ مجھے لیگ کے اختتام پر پانچ اچھے مقامی بلے با دکھا دیں اور میں اس لیگ کو کامیاب قرار دے دوں گا۔

'بصورت دیگر اسے پاکستان کرکٹ میں موجود خرابیوں سے شائقین کی توجہ ہٹانے کا ایک حربہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے'۔

اس وقت پی ایس ایل میں بلے بازوں کی فہرست میں غیر ملکی کھلاڑیوں کا پلہ بھاری ہے جہاں روی پوپارہ، تمیم اقبال اور کیمرون ڈیلپورٹ کامیاب ترین بلے باز ہیں جس کے بعد پاکستان احمد شہزاد اور عمر اکمل کا نمبر آتا ہے۔

70 اور 80 کی دہائی میں لیگ اسپن کے فن کو ازسرنو زندہ کرنے والے 60 سالہ کھلاڑی کے مطابق پی ایس ایل کیلئے کچھ عرصہ انتظار کرنا چاہیے تھا اور اس کے انعقاد سے قبل ملک میں کرکٹ کو درپیش مسائل کو حل کیا جانا چاہیے تھا۔

'ہم ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے، بنگلہ دیش کے ہاتھوں 3-0 سے شکست ہوئی اور ہم نے زمبابوے سے دورہ پاکستان کیلئے منت سماجت کرتے رہے۔ پھر وعدہ کیا گیا پی ایس ایل کا انعقاد پاکستان میں ہو گا'۔

انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام چیزوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

کیا پی سی بی کے پاس کوئی منصوبہ بھی ہے؟

عبدالقادر نے سابق کپتانوں وسیم اکرم اور رمیز راجہ کو لیگ کا سفیر بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض بھی ادا کرنے کرنے کی اجازت دینے پر بھی حیرانی کا اظہار کیا۔

وسیم اکرم فرنچائز اسلام آباد یونائیٹڈ کے ڈائریکٹر کرکٹ جبکہ رمیز راجہ کرکٹ کمنٹیٹر کے فرائض بھی ادا کر رہے ہیں۔

'کیا ان دونوں سے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے؟'

سابق لیگ اسپنر نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس لیگ کی طاقت کا اندازہ لگانے کیلئے کوئی منصوبہ بنانا چاہیے تھا اور اسے مقامی نوجوان کھلاڑیوں کیلئے پلیٹ فارم بنانا چاہیے تھا۔

'بورڈ کو ہر ٹیم میں مقامی نوجوان کھلاڑیوں کھلانا چاہیے تھا اور وہ یقیناً ان میں سے کسی کو مستقبل کیلئے ڈھونڈ لیتے۔ میں ذاتی طور پر نئے کھلاڑیوں کو پی ایس ایل کی ٹیموں کا کپتان بناتا کیونکہ شاہد آفریدی اور مصباح الحق جلد ریٹائر جائیں گے'۔

'مجھے نہیں سمجھ آتا کہ جب ہر سرمایہ کار چاہے گا کہ اس کی ٹیم جیتے تو پھر ہم مقامی باصلاحیت کھلاڑیوں کو کیسے ڈھونڈیں گے'۔ وہ انی بہترین ٹیم سے کھیلیں گے۔ وہ ابھرتے ہوئے یا نئے باصلاحیت کھلاڑیوں کیونکر انحصار کریں گے؟'۔

عبدالقادر اس موقع پر پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کے خیالات سے متفق نظر آئے جنہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ کیلئے منتخب کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں تواتر سے مواقع نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کی تھا۔

وقار نے ہفتے کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'مجھے نہیں پتہ کہ اس حوالے سے کرکٹ بورڈ کیا کر سکتا ہے کیونکہ یہ ایک کمرشل چیز ہے اور فرنچائزز کی اپنی ضروریات اور کاروباری معاملات ہیں'۔

'تاہم، اچھا ہو گا اگر ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلئے اعلان کردہ اسکواڈ کے کھلاڑیوں کو پی ایس ایل میں زیادہ سے زیادہ میچز کھیلنے کو ملیں'۔

وقار نے کہا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ بابر اعظم تمام میچوں میں نہیں کھیلے، اسی طرح محمد عرفان کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور استفادہ نہیں کیا گیا۔

پاکستان سپر لیگ کے پلے آف میں صرف تین میچ بچے ہیں جہاں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہیں۔

لیگ کا فائنل 23 فروری کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔

آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں