یہ لگاتار دوسرا موقع ہے کہ پاکستان کسی بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ میں اپنی مہم کا آغاز ہندوستان کے خلاف میچ سے کرے گا۔ اس مرتبہ یہ مقابلہ ڈھاکا میں ایشیا کپ میں ہو گا۔

ایشیا کپ 2016 کا آغاز بدھ سے میزبان بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کو 3-0 سے وائٹ واش اور سری لنکا کو 2-1 سے شکست دینے والی ہندوستانی ٹیم کے درمیان میچ سے ہوا۔ جس میں ہندوستان نے کامیابی سمیٹی۔

آخری مرتبہ پاکستان اور ہندوستان کی ٹیمیں ورلڈ کپ 2015 میں ایڈیلیڈ کے مقام پر 15 فروری کو ٹکرائی تھیں۔

حالانکہ یہ ہندوستان کی ٹیم کا بھی ایونٹ میں پہلا میچ تھا لیکن وہ اس سے قبل آسٹریلیا میں تین ماہ گزار چکے تھے جہاں انہوں نے میزبان ملک کے خلاف چار ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد سہ ملکی سیریز میں بھی شرکت کی تھی جس میں شریک تیسری ٹیم انگلینڈ کی تھی۔

تقریباً ایک سال بعد 27 فروری کو دونوں روایتی حریف ایک بار پھر ایک دوسرے مدمقابل ہوں گے جو پہلی مرتبہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلے جا رہے ایشیا کپ میں پاکستان کا پہلا میچ ہو گا۔

ایونٹ کے تمام مقابلے ڈھاکا کے شیر بنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہی ہوں گے۔

اس طرح مرتبہ بنگلہ دیش کے خلاف پہلا میچ کھیلنے کے بعد مہندرا سنگھ دھونی کی زیر قیادت ہندوستانی ٹیم کے پاس خود کو صورتحال سے ہم آپنگ کرنے کا وقت مل گیا ہے اور میچ سے قبل پانچ دن گزار چکے ہوں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ محمد عامر اور محمد سمیع سمیت متعدد پاکستانی کھلاڑی حال ہی میں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کھیل کر واپس لوٹے ہیں اور وہ وہاں کی پچز سے واقفیت رکھتے ہیں۔

عظیم پاکستانی کھلاڑیوں کی نظر میں ہندوستان فیورٹ

ڈھاکا کے ایک روزنامہ پروتوم الو کے مطابق پاکستان کے دو سابق کھلاڑیوں افغانستان کے کوچ انضمام الحق اور متحدہ وعرب امارات کے کوچ عاقب جاوید نے ٹائٹل جیتنے کیلئے ہدنوستانی ٹیم کو فیورٹ قرار دیا ہے۔

ایک اور پاکستانی عظیم کھلاڑی وسیم اکرم نے ہندوستانی ٹیم کی حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے ہفتے کو پاکستان کے خلاف میچ کیلئے فیورٹ کا درجہ دیا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق وسیم اکرم نے کہا کہ یہ ایک اچھا میچ ہو گا اور ہندوستانی ٹیم کی حالیہ فارم اور ان کے کھیل کو دیکھتے ہوئے وہ میچ کیلئے فیورٹ ہو سکتے ہیں۔

حقیقتتاً اگر اعدادوشمار کی رو سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور ہندوستان کے آخری پانچ مکمل میچوں کے نتائج بالکل مختلف ہونے کے ساتھ اگر انہیں ترتیب وار دیکھا جائے تو بالکل الٹ ہیں۔

ہندوستانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پہلے سے آخری یعنی پانچویں میچ تک تسلسل کچھ یوں بنتا ہے۔ فتح، فتح، شکست، فتح، فتح۔ ہندوستان نے آسٹریلیا کے خلاف وائٹ واش کیا جس کے بعد انہیں سری لنکا کے خلاف پونے میں ہونے والے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں شکست ہوئی تاہم بقیہ دونوں میچ جیت کر انہوں نے سیریز اپنے نام کی۔

پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے جہاں ترتیب کچھ یوں رہی۔ شکست، شکست، فتح، شکست، شکست۔ پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف شکستوں کے بعد آکلینڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نصیب ہوئی لیکن پھر کیویز نے بقیہ دونوں میچوں میں کامیابی حاصل کی۔

ریکارڈ بھی ہندوستان کے حق میں

2007 میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے افتتاحی ایڈیشن کے بعد سے اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان کھیل کے سب سے چھوٹے فارمیٹ کے باہمی مقابلوں میں پاکستان کی فتح کا تناسب محض 20 فیصد ہے۔ وہ ہندوستان کے خلاف صرف ایک میچ جیتنے میں کامیاب رہے، چار میں شکست ہوئی اور ایک میچ ٹائی رہا۔

مجموعی طور پر فروری 2015 سے اب تک پاکستان نے 13 ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے۔ ان میں سے سات میں فتح، پانچ میں شکست جبکہ ایک میچ ٹائی رہا (انگلینڈ کے خلاف اس میچ میں پاکستان کو سپر اوور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گرین شرٹس کی فتح و شکست کا تناسب 42:58 رہا۔

اس معاملے میں ہندوستانی ٹیم کا ریکارڈ بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں اور انہیں پاکستانی ٹیم پر معمولی برتری حاصل ہے۔ فروری 2015 سے اب تک کھیلے گئے دس میچوں میں سے مہندرا سنگھ دھونی الیون چھ میچ جیت سکی جبکہ چار میں اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اس کی فتح کا تناسب 60 فیصد رہا۔

لیکن یہ کارکردگی ان کو ٹی ٹوئنٹی کی عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن دلانے کیلئے کافی تھی۔

گزشتہ سال اکتوبر میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 0-2 اور پھر ایک روزہ میچوں میں 2-3 سے شکست کے بعد تنزلی کا شکار ہونے والی ہندوستانی ٹیم آسٹریلیا اور سری لنکا کے خلاف یکے بعد دیگرے دو سیریز میں فتوحات کے ذریعے عالمی درجہ بندی میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے میں کامیاب رہی۔

لیکن یہ جنوبی افریقہ کے خلاف اتار چڑھاؤ سے بھرپور ایک روزہ میچوں کی سیریز ہی تھی جہاں ہندوستانی ٹیم فارم کی بحالی میں کامیاب ہوئی اور سوائے یکطرفہ رہنے والے فیصلہ کن میچ کے، بقیہ دونوں میچوں وہ فتح سے ہمکنار ہو سکتے تھے۔

مستحکم ہندوستانی ٹیم

پاکستان کے مشہور باؤلنگ اٹیک کے خلاف ہندوستانی بیٹنگ ایک مضبوط دیوار کی صورت میں کھڑی رہی اور 2014 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں دونوں ٹیموں کے درمیان ڈھاکا ہی میں ہونے والے میچ میں کھیلنے والی لائن اپ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

پہلے سے ساتویں درجے تک دیکھا جائے تو روہت شرما، شیکھر دھاون، ویرات کوہلی، یوراج سنگھ، دھونی، سریش رائنا اور رویندرا جدیجا تقریباً دو سال سے اس مستحکم بیٹنگ لائن کا حصہ ہیں، صرف یوراج سنگھ وہ واحد کھلاڑی ہیں جن کی پوزیشن پر کچھ تجربات ہوئے۔

ان کی بیٹنگ لائن کا واحد مسئلہ بھی بڑا عجیب یا مزیدار کہہ لیں۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے اب تک روہت، دھاون اور کوہلی انتہائی شاندار فارم میں ہیں تو دوسری طرف یوراج، دھونی اور جدیجا بمشکل ہی بیٹنگ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر گزشتہ چھ میچوں کے دوران یوراج سنگھ نے صرف 26 گیندوں کا سامنا کیا … اوسطاً ایک میچ میں پانچ گیندوں سے بھی کم کا سامنا کیا، نئے کھلاڑی ہردک پانڈیا نے 18 گیندیں کھیلیں۔

مڈل آرڈر بیٹنگ کا ابھی بڑے پیمانے پر آزمایا جانا باقی ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی بیٹنگ اور باؤلنگ میں خاصی تبدیلیاں دیکھی گئیں اور وہ ابھی تک صحیح کامبی نیشن کے متلاشی ہیں، اسی غرض سے محمد سمیع اور شرجیل خان کو آخری لمحات پر ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔

2014 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں 130 رنز بنانے کے بعد ہندوستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے والی اُس پاکستانی ٹیم کے اراکین احمد شہزاد، صہیب مقصود، بلاول بھٹی، جنید خان اور سعید اجمل ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔

غیر مستحکم پاکستانی ٹیم مگر جیت ممکن

پاکستانی میں موجود عدم استحکام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2007 سے اب تک پانچ کپتان تبدیل کیے جا چکے ہیں، محمد حفیظ نے 2014 میں ٹیم کی قیادت کی، اب کمان شاہد آفریدی کے ہاتھوں میں ہے۔

ادھر ہندوستانی ٹیم کے پاس دھونی کی شکل میں صرف ایک قائد ہے جس نے انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا ٹائٹل بھی جتوایا۔

پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی کے علاوہ اس بات کا اب بھی کوئی واضح اشارہ موجود نہیں کہ پاکستان ٹیم ٹی 20 کھیلنے میں مہارت رکھتی ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں متحدہ عرب امارات میں انگلینڈ کی ٹیم نے ان کے خلاف کلین سوئپ کیا جس کے بعد جنوری میں نیوزی لینڈ میں میزبان ٹیم نے 1-2 سے شکست سے دوچار کیا۔

کیویز کے خلاف 1-2 سے شکست کا ہندسہ پڑھنے میں کافی بہتر نظر آتا ہے لیکن سیریز کے آخری حصے میں شاہد آفریدی الیون کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا وہ کپتان کیلئے پریشان کن ہے۔

پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ جیتنے کے بعد پاکستان دوسرے میچ میں 10 وکٹ کی ریکارڈ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر فیصلہ کن میچ میں 95 رنز سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

لیکن پاکستان کے سابق عظیم کھلاڑیوں کے برعکس سابق ہندوستانی کھلاڑی آکاش چوپڑا ریکارڈز کو زیادہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے ایک مباحثے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سب اہم بات یہ ہے کہ اس دن کیا ہوتا ہے۔

'کوئی بھی پاکستان کی جیت کے امکانات کو بالکل رد نہیں کر سکتا'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں