کراچی: پاکستانی صحافی حسن عبداللہ نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں ایک شخص نے دولت اسلامیہ میں شمولیت پر قائل کرنے والے کی کوشش کی اور کہا ’بھائی ، آپ امت کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں‘۔

تاہم، حسن نے شدت پسند گروپ میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنی زندگی سے خوش ہیں اور عسکریت پسندوں میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

اس پر حسن کو کہا گیا ’زندگی کی خوشیاں محدود ہیں۔ آپ کو اپنی آخرت کیلئے کام کرنا چاہیے‘۔

حسن نے امریکی خبر رساں ادارے اے پی کو داعش کیلئے بھرتی کرنے والے شخص سے ہوئی اپنی ملاقات سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے مزید بتایا کہ داعش نے ان سے کسی شدت پسند نظریے کی وجہ سے رابطہ نہیں کیا بلکہ گروپ کا مقصد تھا کہ وہ ان کی خدمات حاصل کرنے کے اپنی پروپیگنڈا مشین کو مزید تقویت دے سکتے ہیں۔

حسن سے ہونے والی ملاقات سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح داعش پاکستان میں اپنے قدم جمانے کیلئے اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کی بھرتیوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔

کراچی میں انسداد دہشت گردی پولیس سیل کے سربراہ راجا عمر خطاب نے خبر دار کیا کہ داعش پاکستان میں پھلنے پھولنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

داعش نے گزشتہ سال مئی میں ایک بس کو نشانہ بناتے ہوئے 45 افراد کو قتل کر کے پہلی مرتبہ پاکستان میں اپنی موجودگی کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان میں داعش کےوفاداروں کی تعداد نامعلوم ہے۔ سرکاری حکام نے حال میں ان وفادروں کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے اصرار کیا تھا کہ ان کے پاس شام اور عراق میں داعش قیادت کے ساتھ کوئی آپریشنل رابطے نہیں۔

انٹیلی جنس چیف آفتاب سلطان نے رواں مہینے ایک سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ سینکڑوں پاکستانی لڑائی کیلئے شام جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ پاکستان واپس آ کر مزید بھرتیاں کرنے میں مصروف ہیں۔

بھرتیاں کرنے اور اپنے قدم جمانے کیلئے داعش خواتین کا بھی سہارا لے رہی ہے۔

عمر خطاب نے اے پی کو بتایا کہ کراچی کے علاقے بلوچ کالونی میں خواتین کیلئے ایک تعلیمی ادارے میں بھرتیوں کیلئے کلاس رومز میں داعش کی وڈیوز چلائی گئی تھیں۔

ان طالبات نے بعد ازاں کراچی کی امیر اور متوسط طبقے کی خواتین سے رابطے کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ خلافت قائم کرنے کیلئے سرگرم داعش کو عطیات دیں۔

عمر خطاب نے بتایا کہ ان میں سے کچھ خواتین کو حراست میں لینے کے بعد تحقیقات کرکے چھوڑ دیا گیا۔

اسی طرح داعش کیلئے بھرتیاں کرنے والے یونیورسٹی کیمپس پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں بس حملے کے ماسٹر مائنڈ سعد عزیز ملک کے انتہائی معتبر تعلیمی ادارے آئی بی اے سے فارغ التحصیل تھے۔

آئی بی اے کی ایک پروفیسر ہما بقائی نے کہا کہ ملک کی کچھ ٹاپ یونیورسٹیوں میں متعددشدت پسند خیالات رکھنے والے پروفیسرز کام کر رہے ہیں۔

’وہ طالب علموں کا ذہن بدلنے کیلئے کلاس رومز کا استعمال کر رہے ہیں، اور یہاں کلاس رومز پر نظر رکھنے کیلئے کوئی طریقہ نہیں‘۔

ایک انٹیلی جنس اہلکار نے اے پی کو بتایا کہ سیکیورٹی ادارے داعش کے حامی اور اس کیلئے طالب علموں کو بھرتی کرنے والے کچھ مشتبہ یونیورسٹی پروفیسروں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔

صحافی حسن عبداللہ کے مطابق، خود کش حملوں پرآمادہ افراد کو تلاش کرنا آسان ہے۔ ان کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے۔

تاہم، پڑھے لکھے افراد کو بھرتی کرنا داعش کیلئے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتا ہے۔حسن کے مطابق، وہ مزید دو ایسے صحافیوں کو جانتے ہیں جنہیں گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔

عبداللہ نے بتایا کہ داعش کی ان میں دلچسپی کی وجہ خطے میں شدت پسندی کے موضوع پر ان کی رپورٹنگ اور کئی عسکریت پسند شخصیات سے ملاقاتیں ہو سکتی ہیں۔

عبدا للہ نے بتایا کہ پہلے پہل انہیں سوشل میڈیا پرکسی نے انہیں ایک خبر سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔اس کے بعد ایک ہفتے تک حسن سے دوبارہ رابطہ نہیں کیا گیا مگر ایک دن اُسی شخص نے لنچ کیلئے اپنے دفتر کے باہرموجود حسن سے رابطہ کیا۔

اُس شخص نے عبد اللہ کو بتایا کہ وہ ان کی رپورٹس کو ضرور پڑھتا ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ داعش سے تعلق رکھتا ہے۔

اس پر عبد اللہ نے دعوے کی تصدیق کیلئے اس شخص سے کچھ سوالات پوچھے۔ گفتگو کے آخر تک حسن کو معلوم ہوا کہ کئی پروفیشنلز داعش میں شمولیت اختیار کر ر ہے ہیں۔

اسی طرح ،القاعدہ بھی پروفیشنلز کو بھرتی کر رہی ہے۔ پولیس افسر عمر خطاب کے مطابق، یہ واضح نہیں کہ اس حوالے سے کون سا گروپ مقابلہ جیت رہا ہے کیونکہ پاکستان میں کئی القاعدہ جنگجو اپنی وفاداریاں بدل کر داعش میں شامل ہو چکے ہیں۔

عمر خطاب نے بتایا کہ القاعدہ سے داعش میں شامل ہونے والے اہم افراد میں عبداللہ یوسف اور طیب منہاس شامل ہیں۔

واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سینٹر برائے سیکیورٹی اسٹیڈی سے وابستہ مبصر بروس ہاف مین نے بتایا کہ ماضی میں ایک عسکریت پسند کا تصور پہاڑوں پر رہنا والا کندھے پر راکٹ لانچر لٹکائے ایک قبائلی ہوتا تھا، تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔

شدت پسندوں کی نئی نسل پڑھی لکھی، یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اورپاکستان میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو پر اعتماد انداز میں ورچوئلی یا فزیکلی گلوبل اسپیس میں خود کو منوانا جانتے ہیں۔

’وہ سوشل میڈیا استعمال کرنا جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کس طرح سرحدیں عبور کر کے عالمی معاشروں میں انتہائی آرام سے سیٹ ہوا جا سکتا ہے‘۔

داعش یونیورسٹی طلبا،ڈاکٹروں، وکلا، صحافیوں اور کاروباری شخصیات کو قائل کرنے کے علاوہ فنڈ اکھٹا کرنے کیلئے خواتین کو بھی استعمال کر رہی ہے۔

اس کا مقابلہ پاکستان میں کام کرنے والے طالبان اور القاعدہ برصغیر سمیت کئی دوسرے شدت پسند گروپ سے بھی ہے۔

کراچی میں داعش کے وفاداروں نے اپنی مضبوط موجودگی ظاہر کی ہے اوریہ شہر سرگرمیوں کیلئے عسکریت پسندوں کی ایک پسندیدہ جگہ بھی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai of Shewa Mar 03, 2016 12:51am
رپورٹ تشویشناک حد تک خطرناک ھے ھمارے ہاں پہلے ہی دھشتگردی کی بہتات ھے اوپر سے نیا سلسلہ بھی شروع ھورہا ھے ریاستی اداروں کی زمہ داری بنتی ھے کہ اج وہ اپنے تجربے کو بروئےکار لائیں اور ایسے لوگوں کا پتہ لگائے اور انکو فعال ھونے سے پہلے پکڑیں