اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

'ہمیں اب آفریدی سے نفرت ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ ہم ہندوستان کو ہرا سکتے ہیں'، یہ معروف ایپ سنیپ چیٹ پر پاکستان کرکٹ کی وہ وضاحت ہے جو انڈیا کے خلاف میچ سے قبل سامنے آئی۔

کہیں بھی پرستار پاکستانیوں کی طرح محبت نہیں کرتے، مگر پاکستانی پرستاروں کی طرح نفرت بھی نظر نہیں آتی، اگر یہ کچھ خاص نہیں تو پاکستانیوں میں محبت اور نفرت کے بیک وقت اظہار کی اہلیت بھی موجود ہے، یعنی طویل دورانیے تک اپنی محبت اور نفرت کے درمیان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پہلی بار کی طرح پرجوش بھی ہوتے ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں ذہن گھما دینے والی حقیقت ہے۔

پاکستانی کرکٹ کا ایک پرستار ہونا اخلاقی جمناسٹک سے کم نہیں۔

پھر یہاں شاہدی آفریدی بھی ہیں، جنھیں ان کی کامیابیوں کے لیے سراہا بھی جاتا ہے، مگر جب وہ کچھ کرنے میں ناکام رہے تو ان پر چیخا بھی جاتا ہے، اور اکثر یہ بیک وقت ہو رہا ہوتا ہے۔

ہندوستان کے خلاف میچ میں ان کی کپتانی کی حمایت کرنا مشکل تھا۔ اگر آفریدی ایک گالفر ہوتے (ہیپی گلیمور کا تصور کریں جو زیادہ توانائی سے بھرپور ہوں)، تو وہ اس مرحلے میں اپنے بیشتر گالف اسٹکس بیگ میں چھوڑ کر چلے جاتے۔

آخر آپ اس پچ یا میچ کو دو رات قبل کی طرح کیسے دیکھ سکتے تھے اور تیز باﺅلرز کی ضرورت کا کیسے سوچ سکتے ہیں؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس پچ پر تیز باﺅلرز کو کھیلنا آسان تھا، کیا وہ واکا کی وکٹ پر غلطی کرسکتے ہیں؟ کیا وہ ذہنی طور پر سفر کرکے 1976 کے سبینا پارک پر پہنچ گئے تھے؟

پھر ان کی اپنی باﺅلنگ بھی تو ہے۔

انہوں نے ایک ایسی پچ جہاں گیند اسپن ہورہی تھی، لیفٹ ہینڈرز کے لیے راﺅنڈ دی وکٹ باﺅلنگ کسی نشے میں دھت بیلے ڈانسر کی طرح شروع کی۔ ایک گیند سرفراز احمد سے اتنی دور اسپن ہوئی کہ اسے پکڑنے کے لیے ڈائیو لگانا پڑی۔ اوور دی وکٹ باﺅلنگ کے دوران وہ کسی کھیل پانے والے عفرت کی طرح تھے، اراﺅنڈ دی وکٹ وہ وائیڈ باﺅلنگ کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے ٹھیک باﺅلنگ کی مگر وہ واحد باﺅلر تھے جس نے چار اوورز کیے۔

آفریدی نے اپنے نمبرون اسٹرائیک باﺅلر کے اوورز کا کوٹہ ختم نہیں کیا جو طویل عرصے بعد اس شخص کی طرح واپس آیا جو اپنی ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتا ہے اور جس نے تین اوور میں صرف 11 رنز دیئے۔ انہوں نے اپنے اس باﺅلر کا کوٹہ بھی مکمل نہیں کیا جو دو گیندوں سے کسی بھی بیٹنگ آرڈر کو ہلا سکتا تھا، نہ ہی اس شخص سے جس نے ایک ہی اوور میں دو وکٹ لے کر ہندوستان کے خلاف ماضی کی شکستوں کا سلسلہ ختم ہونے کا خواب دکھایا۔

نہیں وہاں تو صرف جناب آفریدی ہی تھے۔

وہی وہ شخص تھے جو خود دوسرے نمبر پر آئے، اس وقت جب پچ بہت مشکل ثابت ہورہی تھی اور ٹاپ آرڈر کے بلے بازوں کو ہٹ لگانے میں جدوجہد کا سامنا تھا۔ انہوں نے اکمل کو بھی نہیں بھیجا جس میں آنکھ اور ہاتھ کے تال میل کی ماورائی خوبی ہے۔ انہوں نے اپنے سنیئر بلے بازوں کو بھی نہیں بھیجا یہاں تک کہ پاکٹ راکٹ وکٹ کیپر کو بھی نہیں۔

نہیں وہاں تو صرف جناب آفریدی ہی تھے۔

آفریدی صرف گیم کو اچھی طرح پڑھنے کے لیے نااہل نہیں ہیں، وہ لمبا کھیل نہیں سکتے بلکہ کرکٹ کو سمجھنا تو بس ایک پہلو ہے جو ایک کپتان کو کرنا ہوتا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں آپ کے پاس 240 گیندیں ہوتی ہیں اور 240 ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ 240 گیندوں میں کوئی بھی شکست کے نتیجے کا باعث بن سکتی ہے، تو آپ اس پوزیشن پر موجود ایسے شخص پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں جس کی شخصی صلاحیتیں مضحکہ خیز حد تک فیصلوں کی غلطیوں سے بھرپور ہیں۔

یہ ان کے ڈی این اے، ان کے جادو، ان کے وجود کا حصہ ہے۔ یہ بالکل کسی شیر کے پنجرے میں چہل قدمی کرنے جیسا اور یہ توقع کرنا کہ وہ آپ کو نہیں کھائے گا، جیسا ہے۔ سادہ سی وضاحت یہی ہے کہ آفریدی غلطیاں کرنے کے لیے ہے۔

اس چیز نے انہیں کم حیرت انگیز نہیں بنایا، کچھ وجوہات کی بناءپر وہ زیادہ زبردست ہوگئے۔ کیا کوئی ایک شخص کسی دوسرے ملک کو کرکٹ میں اوپر آنے کے لیے متاثر کرسکتا ہے جیسا آفریدی نے افغانستان کو کیا؟ یہاں تک کہ محمد حفیظ بھی اگر پختون ہوتا تو بھی وہ کسی قوم کو متاثر نہیں کرپاتا۔

آفریدی میں کچھ خاص ہے، مگر وہ کچھ ایسا ہی خاص ہے جو آپ کی صبح کی کافی کو خاص بناتا ہے، قیادت کو نہیں۔

عجیب چیز یہ ہے کہ پاکستانی عنصر بھی اس کھیل میں آگیا ہے۔ یہ سب کچھ جاننے اور اس کے ساتھ رہنے کے باوجود پاکستانی پرستار پھر بھی جیت کا سوچتے ہیں۔

اگرچہ یہ خیال اس لیے پیدا ہوا کیونکہ ہندوستان کی کارکردگی آخری میچ میں بہت خراب تھی، اس لیے نہیں کہ پاکستان کتنا اچھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ آفریدی اور حفیظ کی فارم نے اس خیال میں زور پیدا کیا ہو یا ہوسکتا ہے کہ انڈیا پر پورے ٹورنامنٹ میں کھیلنے کے دباﺅ کے بارے میں سوچا گیا ہو۔

تو ہاں اگر آپ اس خیال سے کہ پاکستان ہندوستان کو ہرا سکتا ہے، سے اپنی آنکھیں چندھیا رہے ہیں، مگر ایڈن گارڈنز میں، فلڈ لائٹس کی سخت و سرد روشنی، ایک ارب ناظرین کے سامنے پاکستان نے بالکل پاکستان کی طرح ہی کھیلا، جو بہت زیادہ اچھا نہیں تھا، یعنی اتنا اچھا نہیں تھا جو ویرات کوہلی کے لیے کافی ہوتا۔

اور الزام لگانے کے لیے کسی ایک کی ضرورت تھی، خوش قسمتی سے وہاں ایک شخص پہلے سے اس مقصد کے لیے موجود تھا۔ وہ شخص جو میچ سے قبل کہہ چکا تھا کہ اسے انڈین پرستاروں سے پاکستانیوں کے مقابلے میں زیادہ محبت ملتی ہے۔

ذرا تصور کریں کہ انہوں نے یہ بات مستقبل میں آئی پی ایل کنٹریکٹ یا اسٹار اسپورٹس پر کمنٹری کے لیے نہیں کہی، نہ ہی اس خیال سے کہ وہ ایسے ملک میں آیا ہے جہاں پاکستانی شہریت رکھنے والوں کا گرمجوشی سے استقبال نہیں کیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آفریدی نے یہ اس لیے کہا ہو کہ جو پاکستان میں آفریدی کو پسند کرتے ہیں، اسے احمق کہنے لگے۔ ایسا اس لیے بھی کہا ہو کیونکہ ہندوستانی عوام ٹیم کی شکستوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے کمتر اسکورز کی وجہ سے ان کے سحر کا شکار ہیں۔

ایسا اس لیے شاید اس نے کہا کیونکہ وہ آفریدی ہے اور وہ جو کہتا ہے وہ سب کچھ کرتا نہیں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایسی کوئی زبان کی لغزش ہو جو پہلے بھی ہوچکی ہیں اور فوراً تنازع کا باعث بن جاتی ہیں یا ایسی گیند جو اس نے لیگ سائیڈ پر سلپ ڈاﺅن کردی ہو۔

تاہم اگر آپ ان پرستاروں میں سے ایک ہیں جن کے دلوں میں یہ خیال موجود ہے کہ آپ ہندوستان کو ہرا سکتے ہیں، تو آپ ان سلیکٹرز کو الزام دے سکتے ہیں جنھوں نے آفریدی کو قیادت سونپ دی، چار فاسٹ باﺅلرز کھلانے کے فیصلے اور وہ سب کچھ جو آفریدی نے اس میچ میں، کسی بھی میچ یا زندگی بھر کیا، کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں۔

اگر آپ کا واقعی یہی خیال ہے کہ پاکستان جیت سکتا ہے، تو آپ آفریدی ہیں اور پاکستان کی ذہنی ناہمواری کا ثبوت۔

اور ہاں ہوسکتا ہے آپ اسے پسند کریں اور ہو سکتا ہے نفرت کریں مگر یہ بھی ممکن ہے کہ بیک وقت دونوں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

musadique Mar 22, 2016 11:27pm
Exactly what a nice story ,,,,even every single word is true