جب پوری قوم 23 مارچ کو یومِ پاکستان منا رہی تھی تو ایک ایسی سیاسی جماعت کا نام رکھا گیا۔ جس کا جنم اسی سال 3 مارچ کو سابق ناظم کراچی مصطفی کمال اور انیس قائمخانی کی مشترکہ پریس کانفرنس سے ہوا۔ جس میں سابق ناظم نے اپنی منکوحہ جماعت (متحدہ قومی موومنٹ) پر بھارتی خفیہ ایجنسی را سے ناجائز تعلقات ہونے کا الزام کا لگاتے ہوئے نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ جس کانام "پاک سرزمین پارٹی" رکھا گیا ہے۔

ایسے موقع پر جب کہ دور دور تک انتخابات نظر نہیں آرہے۔ ایسے میں ایک نئی جماعت کا جنم یقیناً کسی سیاسی ایجنڈے کی پاداش میں ہی ہوسکتا ہے۔ وگرنہ بے موسمی سیاسی جماعت کی تشکیل اور وہ بھی ایک ایسی سیاسی جماعت کے باغی رہنماؤں کے ملاپ سے جس پر ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت ہونے کا الزام لگا ہو۔ اس بے موسمی سیاسی جماعت کے پاکستانی جمہوریت پر بالکل ویسے ہی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جیسے کہ بے موسمی سردی یا گرمی کے انسانوں پر۔

یومِ پاکستان پر بنے والی اس جماعت کا نام میں غیر متوقع طور پر مہاجر کا لفظ استعمال کئے بغیر رکھا گیا ہے۔ جو اس طرف اشارہ ہے کہ شہرِ کراچی کے سابق ناظم اور سینیٹر متحدہ کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے صرف مہاجر کمیونٹی کو ٹارگٹ نہیں کر رہے۔ بلکہ ان کی نظریں ملکی سیاست پر ہیں۔ جس میں متحدہ ابھی تک ناکام ہے۔

مصطفی کمال اور ان کے قافلے میں شامل ہونے والے ابھی تک صرف متحدہ کو نشانہ بنا کر اپنا 'منجن' بیچ رہے ہیں اور اس کی وجہ ان تمام رہنماؤں کی متحدہ سے ماضی میں وابستگی ہے۔ جو کہ بیداریِ ضمیر کی وجہ سے اب ختم کردی گئی اور اب پاکستان کے لئے کچھ کرنے کے مبینہ عزم انھیں ایک نئی پارٹی بنانے پر اُکسا رہا ہے۔جس میں ابھی تک متحدہ کے صرف وہ رہنما شامل ہوئے ہیں۔ جن کے ضمیر جاگ چکے ہیں (کچھ کےضمیر جاگنے والے ہیں)۔

پاکستانی سیاسی تاریخ اور حالات کو دیکھتے ہوئے تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ مصطفی کمال متحدہ کو نشانہ بناتے ہوئے متحدہ کے ووٹ بنک کو ہی ٹارگٹ کرتے۔ تاکہ پہلے وہ کراچی، پھر سندھ اور پھر پورے ملک میں بزریعہ ضمیر جاگ جانے والوں کے اپنی سیاست چمکاتے۔ مگر مصطفیٰ کمال کی جانب سے اگر مہاجر کمیونٹی کو ہی صرف نشانہ نہیں بنایا گیا تو یقیناً اس کے پسِ پردہ کچھ عظائم ہوں گے۔ جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوں گے۔

کمال والوں کی طرف سے "پاک سرزمین پارٹی" کا نام بھی شاید اُن لوگوں کی خوشی کو ذہن میں رکھ کر رکھا گیا ہے۔ جنھیں پاکستان کی سرزمین کا مضبوط محافظ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لفظ "پاک" کا چناؤ شاید اُس تاثر کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ جس کے الزامات متحدہ پر لگتے رہے ہیں۔ جیسے کہ متحدہ کے ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ مبینہ تعلقات اور متحدہ کا عسکری وِنگ۔

ابھی تک اس نومولود پارٹی میں شریک ہونے والوں کے علاوہ اگر کسی اور کا ضمیر جاگ سکتا ہے تو وہ گورنر سندھ عشرت العباد ہوسکتے ہیں۔ جو کے 2002 سے گورنر سندھ ہیں۔ مگراِن کا ضمیر تو اس وقت بھی نہیں جاگا جب اپریل 2015 میں قائد تحریک الطاف حسین کی طرف سے پارٹی ورکرز کو کہہ دیا گیا کہ گورنر سندھ کا متحدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا وہ گورنر سندھ سے کوئی امیدیں نا رکھیں۔ لیکن آج کل چونکہ کہ ضمیر جاگنے کا موسم ہے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

ایسے حالات میں جبکہ "پاک سرزمین پارٹی" میں کوئی بھی بڑا سیاسی رہنما شامل نہیں تو کیسے یہ پارٹی کوئی کمال کرسکتی ہے؟۔

اس سوال کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ چونکہ انتخابات میں ابھی کافی وقت ہے۔ اس لئے اس جماعت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جوکہ 24 اپریل کو کراچی میں جلسہ کرکے اپنی سیاسی قوّت کا مظاہرہ کرے گی۔ ممکنہ طور پر اس جلسے میں بھی متحدہ کے وہ رہنما شامل ہوں گے۔ جن کے ضمیر اس وقت تک جاگ جائیں گے۔

ایسے حالات میں جب کہ مہاجر کمیونٹی کے باغی رہنماؤں نے ملکی سیاست کو ٹارگٹ بناتے ہوئے نئی سیاسی جماعت بنا لی ہے۔ تو یقیناً اب انھیں ایک ایسے مہاجر لیڈر کی اشد ضرورت ہوگی جوکہ 'مہاجر' ہو، ملکی لیول کا ہو، اسے اسٹیبلشمنٹ کی آشیر وار حاصل ہو اور وہ دیگر موقع پرست یا ضمیر کی آواز پر وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کو بوقتِ ضرورت اپنے قافلے میں شریک کرسکے۔

بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ یہ تمام خصوصیات سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف میں پائی جاتی ہیں۔ جو کہ کچھ دن پہلے ہی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہونے کی وجہ سے بیرونِ ملک روانہ ہوئے ہیں۔ جہاں پہنچتے ہی سابق صدر چاق و چوبند ہوگئے۔ معصوم حکومت اور مسکین عدالتیں جنھیں اندازہ ہی نہیں کہ سابق صدر ایس ایس جی کی کمانڈو رہ چکے ہیں۔ ان کی کمر نا تو جھک سکتی ہے اور نا ہی ٹوٹ سکتی ہے۔

سات سال تک صدر اور نو سال تک چیف آف آرمی سٹاف رہنے کی وجہ سے سابق صدر پورے ملک اور خاص طور پر پنجاب میں اپنے مداح رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق صدر اس گُر سے اچھی طرح واقف ہیں کہ موقع پرست سیاستدانوں کو بوقتِ ضرورت کیسے استعمال کرنا ہے۔

علاج کے لئے دبئی میں موجود سابق صدر سیاسی بیٹھکوں میں سِگار پیتے پائے گئے ہیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر باآسانی اس نومولود پارٹی کی پرورش کرسکتے ہیں اور چونکہ انتخابات ابھی دور ہیں۔ اس لئے سابق صدر دبئی میں بیٹھ کر اپنے سیاسی و عسکری ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مستقبل کے لئے کمال کا ماحول بنا سکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

حافظ Mar 25, 2016 07:36pm
اہلیت اور دیانت کی شرط پر کوئی بھی آسکتا ہے۔
GPK Mar 26, 2016 03:51am
Political enemies rumor machines just started against new born parties!