'پاکستان ٹیم کا مسئلہ شرجیل کی طرح ہے'

26 مارچ 2016
شرجیل نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاکے خلاف پاکستان کو اچھا آغاز فراہم کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
شرجیل نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیاکے خلاف پاکستان کو اچھا آغاز فراہم کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

شرجیل واقعتاً گیند کو چت کرسکتےہیں، کوئی بھی چیز جو ان کے بلے کی پہنچ میں ہو اس کو پلک جھپکتے ہی میدان سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ وہ جارحانہ انداز میں کھیلنے والے کھلاڑی ہیں بشرط حالات موافق ہوں اور وہ پاور پلے کے مکمل کھلاڑی ہیں۔

وہ فیلڈرز کو دھوکا دیتے ہیں، گیند کو اچھھی طرح غائب کرسکتے ہیں جیسے لمبائی میں، اسپن کو اچھا کھیل سکتے ہیں اور باؤلر سے ڈرے بغیر اس کو کھیلتے ہیں۔

نیوزی لینڈ نے ان کے پل، ڈرائیو اور دیگر شارٹ میدان کے باہر جاتے دیکھے، آسٹریلیا کو بھی کچھ وقت تک یہ دیکھنا پڑا۔

مگر شرجیل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت محدود بلے باز ہیں، جیسے کرکٹرز کہتے ہیں کہ جب گیند ان کے بلے کی زد میں ہو تو وہ چوکے لگانے والی مشین ثابت ہوتے ہیں، مگر گیند جب اسٹمپ سے باہر ہو، وہ ٹاپ آرڈر کے ٹیل اینڈر ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ اچھے شاٹ نہیں کھیل سکتے، بلکہ گیند کو ہٹ لگانے والے ففٹی ففٹی بہترین بلے باز سمجھے جاسکتے ہیں۔

ایک آسان کور ڈرائیو ہوگی، ڈروپی ہاف اینگلڈ کور ڈرائیو کھیل بھی سکتے ہیں اور ضائع بھی کرسکتے ہیں۔ اگر تنوع لائیں اور وکٹوں کے درمیان برق رفتار ہوں تو وہ ٹیموں کو تنگ کرنے کے دوسرے راستے بھی بنا سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ عام طورپر چند لمحوں کے لیے متاثر کرکے آؤٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان بحیثیت ٹیم ایسی ہی ہے۔

آپ نے محمد عامر کو گیند گھماتے ہوئے دیکھا، بڑی توانائی کے ساتھ گیند ان کی انگلیوں سے نکلتی ہے اور آپ صرف آواز سنتے ہیں۔ آپ نے وہاب ریاض کی توانائی سے بھر پور وکٹوں کو اڑاتی باؤلنگ کو دیکھا اور آپ جذباتی ہوگئے۔ آپ نے سرفراز احمد کی متعدی شخصیت، متحرک فٹ ورک کو دیکھا اور آپ نے ان کو داد دی۔ اور آپ نے محمد سمیع کو رفتار کے ساتھ گیند سیم کرتے ہوئے دیکھا اور آپ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا کچھ کرسکتا ہے۔

لیکن جب آپ کسی پاکستانی بلے باز کو وکٹوں کے درمیان دوڑتے ہوئے دیکھتے ہیں، نہیں ایسا اکثر دیکھنے کا موقع نہیں ملتا مگر جب ایسا ہوتا ہے تو آپ انھیں نزاکت سے جھومتے، فالج زدہ دیکھتے ہیں، وہ سخت محنت کرتے ہوئے تیز نہیں بھاگتے اوربمشکل پہلا رن بناتے ہیں۔

آپ انھیں باؤنڈری سے 15 میٹر اندر فیلڈنگ کرتے تو دیکھتے ہیں، مقابلہ کرتے نہیں کیونکہ وہ دو رن کو کسی صورت روک نہیں سکتے۔

آپ نے شعیب ملک کو فیلڈ میں تو دیکھا ہوگا ، باؤلنگ کرتے ہوئے نہیں، سوائے اس وقت کے جب کسی باؤلر کو مشکلات کا سامنا ہو، اس کے علاوہ انھیں کبھی باؤلنگ کرتے نہیں دیکھا۔

آپ نے شاہد آفریدی کو بیٹنگ کے لیے جلدی جاتے دیکھا، وجوہات جو بھی ہوں، دس گیندوں سے کم کا سامنا کرکے وہ میدان دوبارہ چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ ٹیم کو دیکھتے کہ وہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو کھیلنے کی سمجھ نہیں رکھتی۔

وقار یونس نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی کھلاڑیوں کو فیلڈنگ کے لیے چنا جائے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کرکٹ کو جس ذہن سے دیکھا جاتا ہے اس کو بدلا جائے۔ وہ اپنے کھلاڑیوں کی ایک مخصوص صلاحیت کے ساتھ چل نہیں سکتے۔ مزید تجزیہ اور پیشہ ورانہ تجزیے کا مطلب یہ ہے کہ عام کھلاڑی سیکھ سکتا ہے اور اپنا سکتا ہے اور محض اچھے کے لیے ضروری نہیں ہے۔ ان کی کرکٹ باصلاحیت ہے لیکن بوسیدہ ہے۔

عمران طاہر ایک واضح مثال ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کیا غلط ہے۔ طاہر نے اپنی کرکٹ پاکستان میں سیکھی لیکن پوری دنیا میں کھیلا۔ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کی ڈومیسٹک کرکٹ میں وہ مضحکہ خیز فیلڈر تھے ویسے ہی جیسے وہ پہلے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں تھے۔ اب وہ مسخرے نہیں ہہں۔ وہ توجہ دینے والے اور کوشش کرتے ہیں یقینی طوپر اسٹار فیلڈر نہیں، لیکن اہم یہ ہے کہ وہ جھپٹتے ہیں، پہلے کی نسبت تین گنا بہترکیچ کرتے ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ سے زیادہ فٹ ہیں اور فیلڈ میں اب بوجھ نہیں۔

ایک آدمی جو فیلڈ میں آخری نقطے پر پاکستان کے بہترین فیلڈرز میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وکٹ کا جشن مناتا ہے تو وہ اکثر پاکستانی کھلاڑیوں کی نسبت جلدی حرکت کرتا ہے۔

تو یہ پاکستانی فیلڈرز کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟ کیوں پاکستانی بلے باز گیند کو اس جگہ نشانہ نہیں بنا سکتے جہاں فیلڈر نہیں ہوتا اور بہتری نہیں لاسکتے؟ کیوں پاکستانی بلے باز ایک رن کے دوران بھی چیختے ہیں؟ کیوں پاکستان اپنے آل راؤندڈرز کو استعمال نہیں کرتا جب وہ باؤلنگ کرتے ہیں؟۔

کیوں کیوں اور کیوں، کوئی انھیں پیشہ ورانہ انداز میں آگے نہیں لے جاتا؟

کرکٹ ٹیمیں کنٹرول کرنے کے قابل کرکٹرز کو قابو کرنے کی بات کرتی ہیں لیکن پاکستان ایسے کھلاڑیوں کو نظرانداز کرتا ہے، جب وہ آسٹریلیا سے ہارے تو اننگ میں کم باؤنڈریز اور لاتعداد ضائع کی گئی گیندیں تھیں، حالانکہ وکٹوں کو ہاتھ میں رکھتے ہوئے کچھ اچھی بیٹنگ بھی کی ، یہ مکمل طور پر ناقابل فہم ہے مگر پاکستان کی اکثر کرکٹ ایسی ہی ہے۔

حال ہی میں وسیم اکرم نے کہا کہ پاکستان کے چھ اوورز میں بغیر کسی نقصان کے 25 رنز ہونے چاہیے۔ جس کا بنیادی مطلب یہی ہےکہ ان کے پاس کوئی ٹاپ آرڈراور مڈل آرڈر نہیں ہے یعنی انہیں محفوط کھیلنا چاہئے، مگر اس طرح یہ حقیقت نظرانداز ہوجاتی ہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو یہ ایک طرح کا اعلان ہے کہ جیت نہیں سکتے۔ جو وسیم اکرم ان کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں۔

اپنے چارمیچوں میں انھوں نے بنگلہ دیش کے خلاف بڑے اسکور، ہندوستان کے خلاف اچھی باؤلنگ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف شرجیل کا بہترین آغاز جیسی چند چیزیں انھوں نے اپنی صلاحیت کے ذریعے دکھائی ہیں۔

یہ ایک بڑی باصلاحیت ٹیم ہے لیکن یہ سست ہے اور یہ بے کار کرکٹ کھیلتے ہیں اور وقت کے ساتھ تبدیل ہونے سے انکار کرتے ہیں، وہ ٹی ٹوئنٹی کے ڈیجیٹل دور میں اینالاگ ٹیم ہے۔

جیسا کہ شرجیل جو گیند کو ڈیپ مڈ وکٹ کی جانب زوردار انداز میں کھیلتا ہے تو مخالف ٹیم ان کی کمزوریوں کے مطابق باولنگ کرتے ہوئے انھیں آؤٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور انھیں باہر بھیج دیتی ہے، یہ اگر، مگر کی بات ہے۔

پاکستان شرجیل کی طرح ہے جو گیند کو پھینک سکتا ہے۔ پاکستان ٹیم کا مسئلہ بھی شرجیل جیسا ہے جیسا کہ وہ بہت محدود ہیں، وہ بہت بہت محدود ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Reality Mar 27, 2016 03:22am
sharjeel memon ki tarah hay