'مالک ہوں پاکستان کا'

09 اپريل 2016
— آفیشل پوسٹر
— آفیشل پوسٹر

اکیسویں صدی کے آغاز پر پاکستانی سینما کی مقبولیت کا دور واپس پلٹا اور ایکشن اور کامیڈی فلمیں بننے کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ کل بروز جمعہ، ریلیز ہونے والی فلم مالک بھی ایک ایکشن فلم ہے۔ یہ ٹیلی وژن کے معروف اداکار عاشر عظیم کی پہلی فلم ہے۔ انہوں نے 22 برس پہلے پاکستان ٹیلی وژن کوئٹہ مرکز سے ڈراما سیریل دھواں سے اداکاری کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔

اس کا شمار پی ٹی وی کی ایکشن ڈراما سیریل میں ہوتا ہے۔ اس ڈرامے کا موضوع کرپشن اور منشیات کی روک تھام تھا، جبکہ اس فلم کا موضوع کرپشن اور ناانصافی ہے۔ عاشر عظیم نے اس فلم کو بناتے ہوئے ڈراما سیریل دھواں کی مقبولیت کو ذہن میں رکھا، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مالک اُس ڈرامے کا فلمی ورژن ہے۔

اس فلم میں عاشر عظیم نے چار ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ اس میں بطور فلم ساز، ہدایت کار، اداکار اور کہانی نویس شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر نمایاں اداکاروں میں فرحان علی آغا، ساجد حسن، محمد احتشام الدین، حسن نیازی، عدنان شاہ ٹیپو، راشد فاروقی، تتمیع القلب، نوشیر سیموئل، شکیل حسین، کاشف حسین، عمران میر، بشریٰ عاشر عظیم، لبنیٰ اسلم، پاکیزہ خان، مریم انصاری، ارم اعظم اور دیگر فنکار ہیں۔ فلم میں افواجِ پاکستان کے حقیقی جوانوں نے بھی کام کیا ہے۔

فلم کے موسیقار ساحر علی بگا، گلوکار راحت فتح علی خان اور گیت نگار عمران رضا ہیں، جنہوں نے اپنے حصے کا کام بخوبی نبھایا۔ گیتوں کی دھنیں مدھر اور شاعری دلکش ہے۔ ایک دھن کی شاعری میں بابا فرید کا صوفی کلام بھی شامل کیا گیا۔

.   آفیشل پوسٹر۔
. آفیشل پوسٹر۔

فلم کی تشکیل میں افواج پاکستان کے ادارے آئی ایس پی آر کا خصوصی تعاون حاصل رہا، جس وجہ سے عسکری مناظر میں جدید ہتھیار، گن شپ ہیلی کاپٹرز، سی ون تھرٹی جہاز، ٹینک اور فوجی جوان بالکل پیشہ ورانہ انداز میں استعمال ہوتے دکھائی دیے۔

فلم کی عکس بندی کراچی، اندرون سندھ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہوئی۔ اس کے فارمیٹ میں ریڈ اور بلیک میجک کیمرے استعمال ہوئے۔ جدید سینما ٹیکنالوجی اور اس فارمیٹ کے ذریعے فلمی مناظر حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتے ہیں۔ فلم کی عکس بندی میں ڈرون کیمروں کا بھی استعمال ہوا۔ ہدایت کار کے بقول اس فلم کا تمام تخلیقی اور تکنیکی کام پاکستان میں ہوا اور کسی بیرونی ذرائع سے کوئی مدد نہیں لی گئی۔

پلاٹ

فلم کی کہانی کا ابتدائیہ بہت شاندار ہے۔ مختلف سمتوں سے تین کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ پہلی کہانی میں سابق فوجی باپ بیٹا ہیں جن کی ایک سیکورٹی کمپنی ہے۔ ایک تاجر کے بیٹے کا اغواء اور پھر پیشہ ورانہ سیکورٹی کمپنی کے اہلکاروں کے ذریعے اس کی رہائی دکھائی گئی۔ بیٹے کا کردار نبھانے والے عاشر عظیم اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں، جب وہ فوج میں تھے، اس وقت کچھ چینی انجینئرز کو بلوچستان میں اغواء کر لیا گیا تھا اور وہ اسپیشل فورسز کی طرف سے کیے جانے والے آپریشن کی کمان سنبھالتے اور کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

اسکرین گریب۔
اسکرین گریب۔

اسی دوران ان کی بیوی ایک بچی کو جنم دینے کے بعد انتقال کر جاتی ہے۔ نومولود بچی کا ساتھ، فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ، ایک سیکورٹی کمپنی تشکیل، اس سابق فوجی کی اب یہ زندگی ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ مختلف اداروں کو پیشہ ورانہ سیکورٹی فراہم کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کی سیکورٹی کا ٹھیکہ اس کمپنی کو مل جاتا ہے۔ اب اس چار دیواری میں جتنی غیر اخلاقی اور بددیانتی پر مبنی حرکات ہوتی ہیں، ان کو وہ قریب سے دیکھتا، مگر خون کے گھونٹ پی کر چپ رہتا ہے۔

دوسری طرف ایک بااصول استاد کو دکھایا ہے، جس کا کنبہ گاؤں میں اس کے اصولوں اور وڈیرہ شاہی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ تیسری طرف پاک افغان سرحد سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان کی کہانی ہے۔

ان تینوں کہانیوں کے کردار کا سنگم شہر کراچی میں ہوتا ہے۔ باپ بیٹے کی سیکورٹی کمپنی کو کراچی میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کا ٹھیکہ ملنا، گاؤں کے وڈیرے کا اپنے صوبے کا وزیرِ اعلیٰ بن کے کراچی منتقل ہونا، پاک افغان سرحد سے پشتون خاندان کا ہجرت کر کے کراچی آنا، ان تینوں کہانیوں کے مرکزی اور ذیلی کردار آپس میں متصادم ہوتے ہیں۔ فلم کے اختتام پر وزیرِ اعلیٰ سندھ اسی سیکورٹی کمپنی کے مالک کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔

تبصرہ

فلم کی کہانی کے بہت سے پہلو تشنہ اور ادھورے رہ گئے۔ بالخصوص فلم کی تھیم اور ٹیگ لائن میں پاکستان کا شہری، پاکستان کا مالک ہوں کا خیال صرف فلم کے اس حصے، جس میں تاجر کے بیٹے کو کراچی سے بازیاب کروایا جاتا ہے اور بلوچستان سے مغوی چینی انجینئرز کو اسپیشل فورسز کے کمانڈوز رہائی دلواتے ہیں، وہیں تک دکھائی دیتا ہے، جس کا دورانیہ بہت مختصر ہے۔

اس فلم میں ابتدائی طورپر دکھائے گئے یہی دوعسکری آپریشن کے مناظراس فلم میں ریڑھ کی ہڈی ہیں، جس کو بنیاد بنا کرفلم کی تشہیر کی گئی، آفیشل ٹریلر میں بھی اسی حصے کے زیادہ مناظر شامل ہیں۔

فلم سازی کی حد تک یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ پاکستان میں ایسی فلمیں بننی چاہیئں۔ اس فلم کا تمام تکنیکی کام مقامی طور پر کیا گیا ہے جو کہ بہت حوصلہ افزاء بات ہے اور اس کے لیے عاشر عظیم اور آئی ایس پی آر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہدایت کاری کے لحاظ سے بھی اس فلم کو اچھی کاوش کہا جاسکتا ہے کیونکہ فلم کے عسکری مناظر میں عاشر عظیم کی بطور ہدایت کار صلاحتیں بہت کھل کر سامنے آئیں۔ وہ ایکشن سینما کے بہترین ہدایت کار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مگر جہاں فلم کردار نگاری اور مکالمے پر منحصر ہے، وہاں ان کی گرفت کمزور پڑ گئی۔

فلم کے کہانی نویس بھی وہ خود ہیں، اس لحاظ سے انہوں نے بہت زیادہ متاثر نہیں کیا، بلکہ اس فلم کی عوامی تشہیر جس انداز میں چلائی اور لوگوں سے حلف لینے کی کمپین کو جس طرح فلم کا مرکزی خیال بنا کر پیش کیا، فلم اس سے بالکل مختلف ہے۔

مالک اور پاکستان کے شہری ہونے کا تاثر تو فلم پہلے گھنٹے میں ہی کھو دیتی ہے، اس کے بعد تووہ تین خاندانوں کی نجی کہانیوں تک محدود ہے۔ اداکاری کے لحاظ سے سب نے اپنا کام بہت اچھا کیا، مگر بہترین اداکاری جس کو کہا جائے، وہ محمد احتشام الدین نے کی ہے۔ ان کے تھیٹر کے پس منظر نے یہاں خوب رنگ جمایا اور وہ اپنے مکالموں کی ادائیگی سے پوری فلم پر حاوی رہے، دیگر اداکاروں میں ساجد حسن، عاشر عظیم، فرحان علی آغا، عدنان شاہ ٹیپو، حسن نیازی اور شکیل حسین نے بھی اپنے حصے کا کام بہتر طور سے کیا۔

چند تکنیکی غلطیاں

فلم میں کئی تکنیکی غلطیاں بھی ہوئیں، جیسا کہ پرانے کرنسی نوٹوں اور ویڈیو کیسٹس کا استعمال، جبکہ ہتھیار سارے جدید دکھائے گئے۔ پاک افغان سرحدی علاقے میں دکھایا گیا کہ ایک نوجوان کی میت آبائی علاقے میں لے جائی جاتی ہے، جس کو نجی سیکورٹی کمپنی والے لے کر جاتے ہیں، مگر ان کے زیرِ استعمال گاڑی ایک فوجی جیپ ہے، جو ممکن نہیں کہ کوئی نجی استعمال میں رکھ سکے۔

سی ون تھرٹی جہاز سے زمین پر چھلانگ لگانے کے لیے پیراشوٹس کا استعمال ڈھنگ سے نہیں دکھایا گیا۔ پختون لڑکی کا لہجہ پشتو نہیں تھا بلکہ وہ رواں اردو میں بات کر رہی تھی۔ سندھ کے وڈیرے کا لب و لہجہ بھی صاف اردو میں کھنک رہا تھا۔ اس طرح کی بہت ساری باریکیاں تھیں جن پر مزید کام کیا جا سکتا تھا۔

فیصلہ

مجموعی حیثیت میں یہ ایک اوسط درجے کی فلم ہے، جس میں ایکشن، رومان، ہلکا پھلکا مزاح شامل ہے، لیکن اجتماعی حیثیت میں اس کہانی کی اہمیت فکشن سے زیادہ نہیں، کیونکہ حقیقی زندگی میں ایسا ممکن نہیں جس طرح اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔

نجی حیثیت میں کوئی کسی صوبے کے وزیرِ اعلیٰ سے اس طرح سے بات نہیں کرسکتا۔ یہ کہانی مستقبل کے پاکستان کی تو ہوسکتی ہے مگر موجودہ پاکستان کے حالات تو اس سے بھی زیادہ خراب ہیں، جتنے اس فلم میں دکھائے گئے اور پھر جس خوش اسلوبی سے انہیں حل کر لیا گیا، یہ صرف فلم کی حد تک ہی ممکن ہے۔

مگر اس سب کے باوجود، کوشش بہت اچھی تھی۔ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ہمیں ایکشن سینما میں عاشر عظیم کی طرف سے مزید اچھا اور بہتر کام دیکھنے کو ملے گا۔

تبصرے (4) بند ہیں

Shahbaz Apr 09, 2016 02:47pm
Bhai g 1992 & 1998 main purane currency notes e thay.... and CDs were not common in 1997 so video cassette was used in vcr... these are not faults
lachar faqeer Apr 09, 2016 03:20pm
خرم سہیل صاحب تشدد اور قانون ہاتہ میں اُٹہانے کا مسئلہ پہلی ئی پاکستان کے گلے میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی عدالت کو نہیں پوچھتا سب اپنے من پسند فیصلے کر رہے ہیں ۔ ایک گورنر کو اُس کا سیکیورٹی گارڈ قتل کرچکا ہے اب اس فلم میں وزیراعلیٰ سندہ کو بہی سیکیورٹی گارڈ کے ہاتہوں قتل ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے تو یہ کس طرح اچھی فلم ثابت ہوتی ہے؟
حافظ Apr 09, 2016 06:06pm
ایک تو پوری کہانی بتا دی۔۔۔ریویو میں پوری کہانی بتانی نہیں ضروری۔ اور اوپر سے فلم میں حقیقت ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ ورک آف آرٹ ہے ڈاکومینٹری نہیں۔ انٹرٹینمنٹ ہے صحافت نہیں۔
Omair Apr 10, 2016 10:48am
shouldn't have told the whole story and climax in review