اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے قوم کے خطاب کے ردعمل میں کہا ہے کہ سب کے لیے قابل قبول جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو ان کے پاس سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو بٹھاتے اور ٹی او آرز بنانے چاہیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کا اعلان احتساب کو دفن کرنا ہے۔

وزیراعظم کا خطاب: الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

some_text

          قابل قبول جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو سڑکوں پر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا
                                                            — عمران خان

عمران خان نے کہا کہ وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کررہے ہیں تاہم پہلے احتساب نواز شریف کا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا سارا پیسہ ان کے بچوں کے نہیں، ان کے نام پر ہے۔

یہ بھی جانیں: پاناما کمیشن:'قائم مقام چیف جسٹس فیصلہ نہیں کریں گے'

انہوں نے کہا کہ صفائی دیئے بغیر نواز شریف اقتدار کا جواز کھو بیٹھے ہیں، ان کو بے قصور ثابت ہونے تک حکومت کا حق نہیں۔

انہوں نے نواز شریف کے خطاب کو 'مذاق' قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں وزیراعظم کی تقریر سن کر افسوس ہوا۔

عمران پریس کانفرنس کررہے ہیں—ڈان نیوز۔
عمران پریس کانفرنس کررہے ہیں—ڈان نیوز۔

انہوں نے کہا کہ شریف خاندان پر الزام ہم نے نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافتی تنظیم نے لگائے ہیں جو سنگین نوعیت کے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم پر اثاثے چھپانے، کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے سنگین الزامات ہیں۔

وزیراعظم کی جانب سے دھرنوں سے ہونے والے ملک کو مبینہ نقصان کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف اگر چار حلقے کھول دیتے تو دھرنا نہ دیتے۔

انہوں نے کہا کہ دھرنا ڈی چوک میں تھا، چین کا اس سے کیا تعلق تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقات میں اگر ان پر الزامات ثابت ہوگئے تو وہ خاموشی سے گھر چلے جائیں گے۔

اپنے خطاب میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'اگر مجھ پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں کیا قوم سے معافی مانگیں گے؟'

پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد رواں ماہ 5 اپریل کو وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن 3 ہفتوں میں کمیشن کا قیام عمل میں نہیں آسکا۔

گزشتہ ایک ماہ میں وزیر اعظم کا یہ تیسرا جبکہ پاناما لیکس پر دوسرا خطاب تھا۔

پاناما لیکس

دو ہفتے قبل آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟

- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما لیکس اور حسن نواز کا 1999 کا انٹرویو

برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے اس لیے ضروری نہیں کہ افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

دستاویزات کے مطابق، وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ عثمان سیف اللہ پی پی پی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا نام بھی دستاویزات میں شامل ہے، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔

لیکس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Apr 24, 2016 01:01am
عمران حان صاحب کا سب بڑا مطالبہ موجودہ سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کا تھا جو حکومت نے مان لیا اب عمران حان اپنی بات سے مکررہے ھیں جو عمران کی پرانی عادت ھے عمران تحقیقات کو صرف پاناما پیپر تک محدود کرنا چاہتا ھے اسکی اصل وجہ یہ ھے کہ اگر تحقیقاتی کمیشن دیگر لوگوں کی حساب کتاب مانگتا ھے تو پھر اس میں شوکت حانم ہسپتال عمران حان ٹرسٹ جھانگیر ترین علیم حاں اور دیگر بھی آسکتے ھیں لیکن عمران ایسا نہیں چاہتے وہ صرف نوازشریف کو نشانہ بنانا چاہتا ھے لیکن ھم وسیع تحقیقات کے حق میں ھیں تحقیقات ھونی چاہئے نئے پرانے سب معاملے اٹھانے ھونگے تاکہ روز روز کی تکرار سے جان چوٹے