اسلام آباد: سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے پاناما پیپر لیکس اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی غیر ملکی دورے سے واپس آکر کریں گے۔

حلف برادری کی تقریب کے موقع پر قائم مقام چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہنا تھا کہ ان کے پاس بحیثیت قائم مقام چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کو مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان دیگر ججز کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔

انھوں نے واضح کیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن قائم کردیا جاتا ہے تو حکومتی محکمے اور ایجنسیز اسکینڈل کی تحقیقات میں مدد فراہم کرنے کی پابند ہیں۔

مزید پڑھیں: پاناما کمیشن:'قائم مقام چیف جسٹس فیصلہ نہیں کریں گے'

رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف نے صحافیوں کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کمیشن کے قیام کی درخواست کا مراسلہ چیف جسٹس کو بھجوادیا گیا ہے تاہم 'اس پر فیصلہ چیف جسٹس انوار ظہیر جمالی وطن واپسی پر کریں گے'۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے جسٹس ثاقب نثار سے حلف لیا۔

خیال رہے کہ جسٹس ثاقب نثار، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے ترکی میں قیام تک قائم مقام چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے گے۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی ترکی کی آئینی عدالت کے قیام کی سالانہ تقریب میں شرکت کریں گے اور ان کی واپسی یکم مئی کو متوقع ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے گذشتہ روز قوم سے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔

آئینی ماہر ایس ایم ظفر کا کہنا تھا کہ قائم مقام چیف جسٹس کے پاس پاناما پیپز لیکس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے حکومتی درخواست پر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الزام ثابت ہوا تو گھر چلاجاؤں گا: نوازشریف

ذرائع کا کہنا تھا کہ تاہم 'قائم مقام چیف جسٹس ثاقب نثار حکومتی درخواست پر کسی قسم کا فیصلہ نہیں لینا چاہتے'۔

بیشتر قانونی ماہرین جن میں سابق ایڈووکیٹ جنرل آف پنجاب خواجہ حارث شامل ہیں، نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اپویشن کا مطالبہ ہے کہ پاناما لیکس اسکینڈل کی تحقیقات چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم کمیشن سے کروائی جائیں اسی لیے قائم مقام چیف جسٹس اس حوالے سے کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امکان ہے کہ قائم مقام چیف جسٹس کسی بھی قسم کے تنازع سے دور رہنے کو فوقیت دیں گے'۔

کمیشن کی بے اختیار باڈی

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی ظفر نے کمیشن کو ایک بے اختیار باڈی قرار دیا ہے کیونکہ ان کے پاس بیرون ملک جا کر تحقیقات کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔

ان کے اس بیان کی تصدیق سابق آٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بھی کی ہے جن کا ماننا تھا کہ مذکورہ اسکینڈل کی معنی خیز تحقیقات پاکستان میں ممکن نہیں کیونکہ بیشتر دستاویزاتی ثبوت پاناما میں موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: 'عدالتی کمیشن کا اعلان احتساب کو دفن کرنا ہے'

ان کاکہنا تھا کہ یہ پاکستان میں کسی کے بھی دائرہ اختیار سے باہر ہے کہ وہ پاکستان سے باہر جا کر پاناما میں تفتیش کرے، جو کہ ایک خود مختار ریاست ہے، اور انھیں قانونی طور پر پاکستانی کمیشن کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین فرخ نسیم کا کہنا تھا کہ کمیشن ایک پینل کی تقرری کرسکتا ہے جو بیرون ملک جا کر ثبوت حاصل کرے۔

کمیشن مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس کے تحت کام کرے گا:

  • کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیرملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

  • کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

  • انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرےگا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

  • انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنےکا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

  • انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجازافسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

  • انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

  • تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

  • کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں