میاں صاحب کی گمشدہ کلہاڑی

اپ ڈیٹ 27 اپريل 2016
میاں صاحب جو کلہاڑی خود اپنے پاؤں پر مار بیٹھتے ہیں، وہ انہیں اپنے گھر میں ہی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ — فوٹو اے ایف پی۔
میاں صاحب جو کلہاڑی خود اپنے پاؤں پر مار بیٹھتے ہیں، وہ انہیں اپنے گھر میں ہی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ — فوٹو اے ایف پی۔

ایک شخص کی کلہاڑی کھو گئی۔ اس کے دل میں شک بیٹھ گیا کہ کلہاڑی اس کے پڑوسی نے چرائی ہے۔ اس نے پڑوسی کی چال کا بغور جائزہ لیا تو اس کی چال بالکل چوروں جیسی لگی۔ اس نے پڑوسی کے چہرے کے تاثرات دیکھے وہ بھی چوروں جیسے تھے۔ اس نے پڑوسی کا انداز گفتگو دیکھا وہ بھی بالکل چوروں جیسا تھا۔ مختصر یہ کہ پڑوسی کی ساری حرکات و سکنات چور ہونے کی چغلی کھاتی تھیں۔

ایک دن وہ آدمی کسی کام سے اپنے گھر کے کباڑ خانے میں گیا تو اسے وہاں کلہاڑی پڑی نظر آئی۔ اس کے بعد اسے اپنے پڑوسی کی تمام حرکات و سکنات میں "معصومیت" نظر آنے لگی۔

یہ کہاوت بھی پرانی ہے، اور جو بات ہم آج کہنے جا رہے ہیں، وہ تو پورے 35 برس پرانی ہے، مگر یاد کروانی اس لیے بھی ضروری ہے کہ تاریخ درست رہے اور حاملِ ہٰذا کے مطالبے پر دہرائی بھی جاسکے۔

سال 1981 کا تھا، مہینہ اپریل اور تاریخ 26۔ ملک کے اخبارات میں ایک جلی سرخی لگی۔ "پنجاب کی نو رکنی کابینہ حلف اٹھا لیا۔" حلف لینے والے فوجی وردی میں ملبوس گورنر پنجاب کا نام لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی تھا اور حلف اٹھانے والے 9 'چنے ہوئے' وزراء میں سے ایک نام ملک کے موجودہ وزیرِ اعظم نواز شریف کا تھا۔

تین بار ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر پہنچنے کا منفرد ریکارڈ رکھنے والے میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آج سے ٹھیک 35 برس قبل 25 اپریل 1981 کو کیا تھا۔ پنجاب کی نو رکنی کابینہ میں میاں صاحب کو خزانہ، ایکسائز اور ٹیکسیشن کا قلمدان سونپا گیا تھا، گویا ان کو پنجاب کے سرکاری خزانے کی چابیاں عنایت کر دی گئی تھیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آمر مطلق، سابق صدر، جنرل ضیاء الحق کے زیرِ سایہ اور سابق گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی کے دستِ شفقت سے کیا تھا۔ ان کی واحد سیاسی قابلیت ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت اور آمر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت تھی۔ یہ میاں صاحب کی سیاسی زندگی کا پہلا چھکا تھا جس میں بلاشبہ 'تھرڈ امپائر' کے فیصلے اور اس کی کھڑی کی ہوئی 'انگلی' کا پورا کردار تھا۔

میاں صاحب کی سیاسی زندگی کا دوسرا چھکا بھی اتفاق سے اپریل ہی کے مہینے میں لگا جب 9 اپریل 1985 کو پنجاب کے سابق صوبائی وزیر میاں نواز شریف نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ میاں صاحب کے واضح حریف مخدوم زادہ حسن محمود تھے، جنہیں اپنے برادرِ نسبتی پیر صاحب پگارا کی حمایت بھی حاصل تھی، مگر میاں نواز شریف، جنرل ضیاء الحق اور گورنر پنجاب لیفٹنٹ جنرل غلام جیلانی کی 'سرپرستی' سے وزارت اعلی کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

29 مئی 1988 کو جنرل ضیاء الحق نے قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ توڑنے اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کو معزول کرنے کا اعلان کر دیا۔ بجا طور پر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی جانب سے اوجڑی کیمپ کمیشن کی تحقیقات کی تہہ تک پہنچنے کے ارادے اور جنرل ضیاء الحق سے اختیارات حاصل کرنے کے وعدے کے باعث آمر مطلق نے انتقامی کارروائی میں یہ قدم اٹھایا۔

مگر اس دور میں میاں صاحب کا یہ بیان اخبارات کی زینت بنا، "29 مئی کا ایکشن کیوں ہوا، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے اس کی وجوہات کا علم ہے، تاہم اس کے تذکرے کی ضرورت نہیں۔ مگر صدر نے جو اقدام اٹھایا، ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔"

اکتوبر 1988 میں اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا تو ایک بار پھر ان کی 'نظرِ کرم' میاں نوازشریف پر ہی پڑی۔ پیپلز پارٹی کے خلاف نو سیاسی اور دینی جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کا اعلان کیا۔ اتحاد کا سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی کو اور سیکرٹری جنرل پروفیسر غفور احمد کو مقرر کیا گیا، تاہم اس کی تمام تر سیاست میاں نواز شریف کی شخصیت کے گرد گھومتی رہی۔

یہ اتحاد پیپلز پارٹی کو شکست تو نہ دے سکا مگر تھرڈ امپائر کی انگلی کا اشارہ سمجھنے کی 'صلاحیت' کے باعث ہی 1988 کے عام انتخابات کے نتیجے میں میاں صاحب کے 'حصے' میں ایک بار پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ آگئی۔

اکتوبر 1990 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے مقابلہ حسبِ سابق اسلامی جمہوری اتحاد سے تھا، جس کے سربراہ میاں نواز شریف تھے۔ یہ انتخابات اس نگران حکومت کے تحت منعقد ہو رہے تھے جس کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے اور جن کی کابینہ میں چوہدری شجاعت حسین سے لے کر عابدہ حسین تک سبھی ایسے لوگ شامل تھے جو اور کچھ بھی ہوں، غیر جانبدار بہرحال نہیں کہلا سکتے تھے۔

اسٹیبلشمنٹ نے صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں بھی یہ 'بنیادی مقصد' کسی بھی لمحے اوجھل نہیں ہونے دیا کہ پیپلز پارٹی کی ایک مؤثر سیاسی قوت کی حیثیت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔

چنانچہ ان انتخابات کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی ان انتخابات میں 1988 کے عام انتخابات کی نسبت 5 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کر کے بھی قومی اسمبلی کی فقط 44 نشستیں ہی حاصل کرسکی، جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد جس نے پیپلز پارٹی کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں سے فقط ایک لاکھ 13 ہزار ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے، قومی اسمبلی کی 106 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

دلچسب بات یہ تھی کہ جن حلقوں میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے، ان میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کم و بیش وہی تھا جو 1988 کے عام انتخابات میں رہا تھا، جبکہ جن حلقوں سے اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار کامیاب ہوئے، ان میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ حیران کن طور پر 10 فیصد بڑھا ہوا تھا۔

برسوں بعد مشہورِ زمانہ اصغر خان کیس نے ان انتخابات کی 'حقیقت' سپریم کورٹ میں واضح کردی تھی، مگر یہاں بھی 'امپائر کی انگلی' کام آئی اور میاں صاحب سمیت کئی جرنیل بے گناہ قرار پائے۔ بہرحال ان انتخابات کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی وجود میں آئی، اس کی بانی طاقتیں، جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹایا، آئی جے آئی کو بنوایا، اور پھر کامیاب بھی کروایا تھا، میاں نواز شریف ہی کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتی تھیں۔ چنانچہ ان طاقتوں کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور میاں نواز شریف 6 نومبر 1990 کو بالآخر وزارت عظمیٰ کے منصب سے فیض یاب ہوگئے۔

میاں صاحب کی 35 سالہ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہ پہلی بار صوبائی وزیر، پہلی بار وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور پہلی بار وزیرِ اعظم، 'تھرڈ امپائر' کے فیصلے اور اس کی 'انگلی' کی مدد ہی سے بنے۔

عرض صرف اتنی ہے کہ میاں صاحب کبھی اپنے گھر کے تاریخی کباڑ خانے کا بھی 'وزٹ' کریں۔ شاید انہیں وہاں تھرڈ امپائر کی تصویر، تھرڈ امپائر کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی، اور تھرڈ امپائر کے بائیں ہاتھ کے دستانے کے علاوہ وہ کلہاڑی بھی نظر آجائے، جو ہمارے میاں صاحب اقتدار ملنے کے چند عرصے بعد، ہر دو چار مہینوں کے وقفے سے اپنے پیروں پر مارنے کا دلفریب مظاہرہ کر ڈالتے ہیں۔

شاید گھر میں موجود تاریخ کے کباڑ خانے میں کلہاڑی ملنے سے میاں صاحب کو اپنے 'پڑوسی' کی حرکات و سکنات میں کچھ نہ کچھ 'معصومیت' نظر آنے لگے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

Nizamuddin Ali Apr 26, 2016 05:59pm
When will we see the end of it. Stealing money from the treasury seems to be normal than exception.
mashkoor ali Apr 26, 2016 06:16pm
فیاض راجا بہت عمدہ لکھاری ہیں۔ ان کے مضامین نہ صرف قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے موضوع سے اتنا انصاف بھی ضرور کرتے ہیں جتنا وہ تقاضا کرتا ہے۔ ان کے آج کے موضوع پر مزید یہی کہا جا سکتا ہے کہ ‘‘انگلی اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ’’۔۔
محمد آصف ملک Apr 26, 2016 06:54pm
100% true
Shaheen Apr 26, 2016 08:12pm
Dear Fayaz sahb, Nice article and nice findings to tell everyone that Nawaz Shareef is not 100% clear in term of democracy.
Malik USA Apr 26, 2016 08:16pm
Your article is eye opener those who support anyone blindly. I request to common people of Pakistan, please open your eyes and at least do not support any one just because of that he is your leader. Please see the develop countries, how they are open and how their PM or President have to clarify to the public's question. Because they understand that this system if running by their tax.
شریف ولی کھرمنگی Apr 26, 2016 11:34pm
کلہاڑی گھر میں نہیں پانامہ میں چھپایا ہوا ہے بچوں کے نام سے۔ بیچارے بیوی کے گھر میں رہنے والے کے پاس کباڑ خانہ کہاں سے آیا۔
Your Name Apr 27, 2016 09:59am
v good bhai
حسن امتیاز Apr 27, 2016 11:49am
محمد فیاض راجہ صاحب کے گذشتہ آرٹیکل کی طرح یہ بھی جان دار تھا۔