اسلام آباد: برطانوی شہریوں کے قتل میں ملوث پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے مذکورہ کیس کا ٹرائل پاکستان کی مقامی عدالت میں کروانے کی درخواست کردی۔

شاہد محمود پر برطانیہ کے ایک ہی خاندان کے 8 افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے۔

ملزم شاہد محمود نے خود کو ممکنہ طور پر برطانیہ کے حوالے کیے جانے کے خدشے کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی، جس پر عدالت کے جج محمد انور کاسی نے ابتدائی سماعت کے بعد حکم امتناعی جاری کردیا۔

مذکورہ کیس کے حوالے سے حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق شاہد محمود نے 12 مئی 2002 کو دیگر 3 ملزمان شاہد اقبال، نظر حسین اور شکیل شہزاد کے ساتھ مل کر انگلینڈ میں ہڈرسفیلڈ کے علاقے میں وسبورن روڈ پر قائم ایک گھر پر پیٹرول بم پھینکا جس کے نتیجے میں گھر میں سوئے ہوئے تمام آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

دستاویزات کے مطابق مذکورہ کارروائی کے بعد شاہد محمود برطانیہ سے فرار ہو کر پاکستان آگئے تھے۔

برطانوی حکومت نے سفارتی ذریعے سے مذکورہ معاملے پر پاکستانی حکام سے رابطہ کیا، اور ملزم کو حوالے کیے جانے کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے شاہد محمود کو گرفتار کرلیا۔

شاہد محمود کو 22 جون 2015 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس وقت کے اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

ایڈیشنل کمشنر کے سامنے پیش کرنے سے قبل مبینہ ملزم کا کہنا تھا کہ انہیں 12 مئی 2002 کو برطانوی پولیس نے گرفتار کیا تھا اور ان کی ضمانت منظور ہونے سے قبل ان سے تفتیش بھی کی گئی تھی۔

شاہد محمود نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے التجا کی کہ برطانوی پولیس نے 10 سال بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت انھیں برطانوی حکام کے حوالے نہیں کرسکتی کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ موجود ہی نہیں ہے۔

تاہم شاہد محمود نے پیش کش کی ہے کہ وہ پاکستانی عدالتوں میں مذکورہ کیس کے ٹرائل کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں جبکہ انھوں نے اسلامی قوانین کے مطابق لواحقین کو خون بہا دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔

ایف آئی اے نے یہ تسلیم کیا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان افراد کی حوالگی کے حوالے سے معاہدہ موجود نہیں ہے لیکن اگر حکومت حوالگی کے ایکٹ 1972 کی دفعہ 4 کے تحت نوٹیفیکیشن جاری کرے تو ملزم کو برطانیہ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔

ایف آئی اے نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ ملزم نے برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کا ٹرائل صرف برطانیہ میں ہی ممکن ہے، 'ملزم برطانوی شہری ہے اور اس کا ٹرائل برطانیہ میں ہی ہوگا'۔

دوسری جانب بین الاقوامی قانون کے ماہر، احمد بلال صوفی کے مطابق ملزم حوالگی کے قانون کا معاملہ اٹھا سکتا ہے تاہم ریاست کے پاس آخری فیصلے کا اختیار موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'ایک شخص منصفانہ مقدمہ کے حق اور حوالگی کے معاہدے کی عدم وجودگی کی بنا پر حوالگی چیلنج کرسکتا ہے تاہم یہ اس کی پسند کا معاملہ نہیں ہے'۔

(یہ خبر 22 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی)


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں