اسحاق ڈار کا بجٹ اور ماں کی دوا!

اپ ڈیٹ 04 جون 2016
امجد علی نے اپنی جیب ٹٹولی، اس کے پاس صرف 200 روپے تھے اور دوائیاں خرید کر ابھی رکشے کے ذریعے گھر بھی پہنچنا تھا۔ — رائٹرز/فائل
امجد علی نے اپنی جیب ٹٹولی، اس کے پاس صرف 200 روپے تھے اور دوائیاں خرید کر ابھی رکشے کے ذریعے گھر بھی پہنچنا تھا۔ — رائٹرز/فائل

ادھیڑ عمر وفاقی وزیر خزانہ بڑی شان اور کروفر سے اسمبلی کے سامنے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ بالکل قریب حکومتی بینچوں پر بیٹھے "ماہر وزرا" بڑے فخر سے اپنے خوش لباس وزیر خزانہ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور تالیاں بجا بجا کر ان کے اعتماد میں اضافہ کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ بڑے اعتماد کے ساتھ اعداد و شمار کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ "جناب اسپیکر! غریبوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی پر بھی پوری طرح قابو پا لیا گیا ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت پوری طرح قیمتوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔"

جناب اسپیکر! وزیرخزانہ کھنکار کر گلا صاف کرنے کے بعد بولے "اپوزیشن نے اپنے دور حکومت میں عوام کو معاشی پریشانیوں کے سوا کچھ نہیں دیا، مگر آج ہمارے دور حکومت میں عوام خوشحال ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: 43.9 کھرب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مزدورکی کم سے کم تنخواہ 14 ہزار روپے مقرر کی جا رہی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے جس سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا۔

جناب اسپیکر! حکومت ملک میں تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں کوئی شخص تعلیم اور صحت کی سہولت سے محروم نہیں رہے گا۔ سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں میں سہولیات کا معیار بہتر بنایا جارہا ہے۔

یہ کہہ کر وزیر خزانہ نے کن اکھیوں سے اسمبلی میں بیٹھے حکومت کے معاشی ماہرین کی طرف دیکھا جو مسکراتے ہو ئے سر ہلارہے تھے، ادھیڑ عمر وزیر خزانہ نے اپنی لکھی ہوئی بجٹ تقریر دوبارہ پڑھنا شروع کردی۔

پڑھیں: اقتصادی سروے پیش، حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام

رشیدہ بیگم نے سر پر اوڑھی ہوئی اپنی چادر درست کی، باورچی خانے سے سبزی کی ٹوکری اٹھائی اور اور گھر سے نکل کر بازار چل پڑی۔ اس کی مٹھی میں سو روپے کے دو مڑے تڑے نوٹ تھے ۔ مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں۔ رشیدہ بیگم کا بیٹا ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ گزارا بڑی مشکل سے ہوتا تھا اور مہینے کے آخری دن اکثر فاقے ہی سے گزرتے تھے۔

رشیدہ بیگم کے ہاتھ میں تنخواہ کے آخری دو سوروپے اور اور ذہن میں طرح طرح کے وسوسے تھے۔ گھی، آٹا، دال، سبزی، کچھ بھی تو نہ تھا گھر میں اور ابھی بیٹے کو تنخواہ ملنے میں پورے چار روز باقی تھے۔

رشیدہ بیگم نے حسرت سے اپنی مٹھی میں دبے دو سو روپے کے نوٹوں کو دیکھا اور اس کی آنکھ میں سے ایک آنسو بہہ کر اس کے بوڑھے چہروں کی جھریوں میں گم ہوگیا۔ بازار پہنچ کر اس نے ایک کلو آٹا، آدھا کلو گھی اور ایک پاو دال خریدی۔ دو سو روپے گویا ہاتھ سے پھسل رہے تھے۔ گوشت کی دکان کے پاس سے گزرتے ہو ئے اس نے بڑی حسرت سے گوشت کو دیکھا۔

کتنے ہی دن گزر گئے تھے گوشت کھائے ہو ئے۔ رشیدہ بیگم کے کان میں اپنی پوتی کی آواز گونجنے لگی جو بازار آنے سے قبل کہہ رہی تھی۔ " دادو! میں نے آج بوٹی کھانی ہے، آج گوشت ضرور لے کر آنا۔" رشیدہ بیگم نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور اس کے دل سے ایک آہ نکل گئی۔

امجد علی نے اپنی بوڑھی ماں کو سہارا دیتے ہو ئے رکشے میں سے نکالا اور سڑک کے دوسری طرف موجود سرکاری ہسپتال کی جانب چل پڑا۔ اس کی بوڑھی ماں گزشتہ کئی دنوں سے بیمار تھی اور طرح طرح کے گھریلو ٹوٹکے آزما لینے کے بعد آج وہ اسے ہسپتال لیکر آیا تھا۔ بڑھیا کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ امجد علی بوڑھی ماں کو انتطار گاہ میں بٹھا کر کاونٹر کی جانب بڑھا۔

پڑھیں:سیاسی جماعتوں اور تاجر تنظیموں نے بجٹ کو مسترد کردیا

ڈیوٹی پر موجود آدمی فون پر بات کرنے میں مصروف تھاجب کہ دوسری طرف پرچی بنوانے والوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔ خدا خدا کرکے امجد علی کی باری آئی اور کاونٹر کلرک نے اسے پرچی بنا کردی۔ اتنی دیر میں اس کی بوڑھی ماں کا برا حال ہوگیا تھا جو بیماری اور نقاہت سے مسلسل کھانسے جا رہی تھی۔

باری آنے پر امجد علی نے اپنی ماں کا چیک اپ کروایا، ڈاکٹر نے کچھ دوائیں لکھ کر پرچی امجد علی کے ہاتھ میں تھمادی۔ امجد علی ماں کو لیکر سرکاری ہسپتال کے میڈیکل اسٹور پر پہنچا اور دوائیوں کی پرچی کاونٹر پر موجود شخص کی جانب بڑھائی۔ اس نے پرچی پر ایک نظر ڈالی اور تیز لہجے میں بولا۔ " یہ دوائیں ہسپتال کے اسٹور پر دستیاب نہیں ہیں، بازار سے ملیں گی۔

امجد علی اپنی ماں کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکلا، سڑک کے دوسری طرف ایک میڈیکل سٹور تھا۔ماں کو بینچ پر بٹھا کر اس نے دوائیوں کی پرچی سیلز مین کو تھمائی۔ سیلز مین نے دوائیاں نکال کر کاونٹر پر رکھیں اور 370 روپے کا بل بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ امجد علی نے اپنی جیب ٹٹولی، اس کے پاس صرف 200 روپے تھے اور دوائیاں خرید کر ابھی رکشے کے ذریعے گھر بھی پہنچنا تھا۔

اس نے بل پر حسرت بھری نگاہیں ڈال کر دو دوائیاں واپس کردیں اور 170 روپے کا بل ادا کرکے سٹور سے باہر نکل آیا۔ امجد علی نے ماں کا ہاتھ تھاما۔ ماں کو بیٹے کا ہاتھ برف کی مانند ٹھنڈا محسوس ہوا۔ اس نے چونک کر بیٹے کے چہرے کی طرف دیکھا۔ امجد علی کے آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔

قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر جاری تھی۔ جناب اسپیکر! فی کس آمدنی 1512 ڈالر سے 1562 ڈالر ہوگئی ہے۔ ایسی معاشی ترقی ملک میں گزشتہ 70 برسوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ یہ موجودہ حکومت ک شاندار معاشی کارنامہ ہے۔ وزیر خزانہ نے سر اٹھا کر فخر سے حکومتی بینچوں کی طرف دیکھا اور ایوان، حکومتی ارکان کی تالیوں اور ڈیسک بجانے کی آواز سے گونجنے لگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

saqib Jun 04, 2016 05:35pm
Very Very Very Very Nice, , , , ,
M.Khan Jun 04, 2016 06:12pm
Good on emotions. Better if few logical points be entered.
M. V. Kothari Jun 05, 2016 09:58am
can feel the pain, have no words to express , speechless :(
foolnstupid Jun 05, 2016 11:48am
mujhey to kuch samajh naheyin aata is kaa hal- her ik ko credit cardd kiyon naheyin dey deytey-------------------shayed koyi hal nikal aayeeeeeeeeeee
Mohammad Salim Jun 05, 2016 11:54am
کاش کہ ایسا ہوتا ، حقیقت سے چشم پوشی ہے کاغذکے پرزوں پر فرضی ڈیٹا ڈال کر اسمبلی میں پیش کرنا اور تالیوں کا داد حاصل کرناسوائے قوم کا مذاق اڑانے کے سوا کچھ نہیں۔ رمضان کے بابرکت مہینے کی آمد آمدہے، بازار میں جاکر حقائق کا پتہ چلتاہے نہ کہ ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اپنا تجزیہ پیش کرنا اور اس کو معاشی حالت میں بہتری کا نام دینا اس قوم وملک کے ساتھ مذاق ہے۔ جب ہم حقائق کو نہیں پیش کریں گے اس وقت تک یہ بجٹ یہ صرف کاغذکا ایک سالانہ ضرورت پورا کر یگا اور یہ صرف ایک formalitiesہے۔