کراچی ایئرپورٹ حملہ،2 سال بعد سیکیورٹی بہتر؟

اپ ڈیٹ 09 جون 2016
دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر جون 2014 میں حملہ کیا تھا  —۔فوٹو رائٹرز
دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر جون 2014 میں حملہ کیا تھا —۔فوٹو رائٹرز

کراچی : جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 2014 میں ہونے والے حملے کو 2 سال گزرنے کے بعد بھی ناقص سیکیورٹی کی صورتحال بدستور برقرار ہے۔

کراچی ایئر پورٹ حملے میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے سے بچ جانے والے رضا علی نے بتایا کہ ایئر پورٹ کے ’گیٹ سی‘ کی طرف پرانے گارڈ ز تبدیل کر دیئے گئے ہیں، ’گیٹ سی‘ عام طور پر پان گیٹ کے نام سے مشہور ہے، اس گیٹ سے مختلف قسم کا سامان ایئر پورٹ لایا جاتا ہے۔

ڈان کو رضا علی نے بتایا کہ 9 جون 2014 کو ایئر پورٹ پر حملے والے دن 5 سے 10 دہشت گرد گیٹ ’سی‘ سے داخل ہوئے تھے، اس زمانے میں گیٹ سی کی سیکیورٹی گارڈز کی نفری کم ہوتی تھی جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے لیے اندر داخل ہونا مشکل نہیں تھا اور دہشت گرد با آسانی رن وے اور طیاروں تک پہنچ گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی ایئر پورٹ حملے کے 2 سال بعد ایک پولیس موبائل یہاں تعینات ہے جبکہ گارڈز کی تعداد میں اضافہ کرکے ایئر پورٹ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

28 سالہ رضا علی ان 8 افراد میں شامل ہیں جو حملے کے وقت اصفہانی ہنگر( طیاروں کی مرمت کرنے والے علاقے) کی نگرانی کررہے تھے، اسی دوران 5 افراد اپنی جان بچانے کے لیے ساڑھے 5 گھنٹے تک ٹوائلٹ میں چھپے رہے جو اس وقت دہشت گردوں سے بچنے کی دعا کر رہے تھے۔

ایک پرانے سیکیورٹی گارڈ نے دہشت گردوں کو ایئر پورٹ کے اندر آنے کی اجازت دی، دہشت گرد ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کا یونیفارم پہن کر اندر داخل ہوئے تھے تاہم ایک اے ایس ایف کے اہلکار نے دہشت گردوں کو ان کے جوتے سے پہچانا تھا۔

واضح رہے کہ جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ حملے میں اے ایس ایف کے کمانڈوز، پی آئی اے کے ملازمین اور سول ایوی ایسوسی ایشن کے عملے سمیت 29 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ پڑھیں: کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گرد حملہ، 29 ہلاک

حملے کے کچھ دن بعد تمام خارجی راستوں پر سیکیورٹی سخت کردی گئی، خاص طور گیٹ سی میں گارڈز کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور اس گیٹ سے داخل ہونے کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبہ جات میں جانے کے لیے مخصوص کارڈز کا بھی اجراء کیا گیا۔

گھروالوں کے پرزور اصرار پر علی رضا نے ایئر پورٹ کی نوکری چھوڑ دی، ان کے گھر والے چاہتے ہیں کہ علی رضا کسی محفوظ ادارے میں نوکری کریں، وہ اب ایک مالیات امور کی کمپنی سے منسلک ہو چکے ہیں۔

اپنی نئی نوکری کے بارے میں علی رضا نے بتایا کہ مجھے ایئرپورٹ کی نوکری چھوڑے 4 ماہ ہوگئے ہیں، اس دوران میں نے کال سینٹر میں بھی کام کیا، میرے کچھ ساتھی بھی اسی پیشے کو اپنا چکے ہیں لیکن میں جانتا تھا کہ اس سے بھی اچھی جاب میرا انتظار کررہی ہے۔

ہلاک ہونے والے ملازمین کیلئے مالی امداد

کراچی ایئرپورٹ ورکرز یونین کے سربراہ یونس خان کا کہنا ہے کہ کولڈ روم میں ہلاک ہونے والے 7 ملازمین کے خاندان کو مالی امداد بھی کی گئی۔

واضح رہے کہ حملے میں 7 ملازمین اپنی جان بچانے کے لیے کولڈ روم کا رخ کیا تھا۔

یونس خان نے بتایا کہ ملازمین دہشت گردوں کے خوف سے کولڈ روم میں پھنس گئے تھے اس دوران ایک ملازمین فرید اللہ ہمایوں ان سے مسلسل رابطے میں تھا۔

واضح رہے کہ ملازمین کی ہلاکت کی تصدیق حملے کے 26 گھنٹے بعد ان اس وقت ہوئی تھی جب ان کی لاشیں کولڈ روم سے برآمد ہوئی تھیں۔

یونس خان کے مطابق دہشت گردوں نے کولڈ روم کے باہر دھماکا کیا، جس سے 7 ملازمین کولڈ روم میں جل کر زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔

ملازمین کے خاندانوں نے سپریم کورٹ میں ایئر پورٹ پر اس کولڈ روم کی مالک کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، بعد ازاں ان ہلاک افراد کے لواحقین کو عدالتی فیصلے کے بعد مالی امداد دی گئی۔

تاہم تمام خاندانوں کو یکساں طورپرمالی امداد نہیں ملی، یومیہ مزدوری پر کا کرنے والے کارکنان کے اہل خانہ کو 7 لاکھ جبکہ مستقل ملازمین کے اہل خانہ کو گریجویٹی اور پروئیڈنٹ فنڈز کے ساتھ زیادہ مالی امداد دی گئی۔

ایئر پورٹ کی سیکیورٹی

3ماہ قبل ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی وجہ سے ایئر پورٹ کا مین گیٹ بند کردیا گیا، مظاہرین نے ایئرپورٹ کے سامنے مرکزی سگنل ہر احتجاج کے دوران ٹائر بھی نذر آتش کیے تھے، انتظامیہ نے ملازمین کو خوف وہراس سے بچنے کے لیے مرکزی دروازہ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

سخت سیکیورٹی بڑھانے کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر ائیر کمانڈر ( ریٹائرڈ) فضل من اللہ نے کہا کہ مظاہرین سے نمٹنے کے لیے ہمیں مین گیٹ کو بند کرنا پڑا، اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مظاہرہن مزید مشتعل ہو سکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ایئر پورٹ کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے حال ہی میں مزید اقدامات کیے گئے ہیں۔

کراچی ایئر پورٹ حملے کے بارے ان کا کہنا تھا کہ ائیر پورٹ پر حملے کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی ہیں، سیکیورٹی انتظامات مزید بہتر کرنے کے لیے ایس ایس جی کمانڈوز سمیت 122ریٹائرڈ فوجی بھرتی کیے گئے ہیں جو ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

جولائی 2015 میں وزیراعظم نے ایئرپورٹ سیکیورٹی پالیسی میں اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کی اجازت دی تھی، تحریری پالیسی کے مطابق ایئر پورٹس کے باہر کی سیکیورٹی کے انتظامات ہر صوبے کے پولیس کی ذمہ داری ہے۔

سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ ایئر پورٹ کے باہر 24 گھنٹے سیکیورٹی کے انتظامات کے لیے رینجرز کی 3 اور پولیس کی 3 موبائل وینز تعینات ہوتی ہیں۔

یہ خبر 9 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں