کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور سندھ رینجرز کے درمیان تعلقات بدترین سطح پر پہنچ گئے اور رینجرز تحقیقات میں مداخلت پر پیپلز پارٹی سے ناراض نظر آتی ہے۔

حکام اور ذرائع کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ میں ایک مشتبہ شخص سے تفتیش کے دوران رینجرز نے دعویٰ کیا کہ انہیں 'بااثر شخصیات' کی جانب سے مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں:رینجرز کی رپورٹ:"پیپلز پارٹی کو کوئی پریشانی نہیں"

اس مشتبہ شخص کی شناخت رینجرز نے اسد کھرل کے نام سے ظاہر کی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سندھ کابینہ میں شامل ایک اہم وزیر کا قریبی ساتھی ہے۔

رینجرز کی جانب سے جاری تفصیلی بیان کے مطابق اسد کھرل تقریباً ایک درجن ملزمان کی معاونت کے الزام میں مطلوب ہیں اور ان میں 8 ملزمان ایسے بھی ہیں جن کے سروں کی قیمت مقرر ہے۔

بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا اب بھی اسد کھرل رینجرز کی تحویل میں ہے یا پھر بااثر شخصیات کی مداخلت کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔

مزید پڑھیں:کراچی: بھتہ اہم شخصیات میں تقسیم ہونے کا انکشاف

رینجرز کی جانب سے جاری ہونے والے باضابطہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ پاکستان رینجرز سندھ کے اہلکار مصدقہ اطلاعات پر اسد کھرل سے تفتیش کررہے تھے۔

تفتیش کے دوران اسد کھرل کے بااثر ساتھیوں نے مداخلت کی اور رینجرز کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ شخص پر سنگین جرائم میں ملوث کم سے کم 12 ملزمان کو سہولت فراہم کرنے کا الزام ہے جن میں سے 8 کے سر پر حکومت نے انعام مقرر کررکھا ہے۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان رینجرز اس واقعے کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے اور ہر حال میں قانون کی رِٹ قائم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد کھرل کو منگل کی رات رینجرز اہلکاروں نے لاڑکانہ کے ماسن روڈ کے علاقے سے تحویل میں لیا اور قریبی سول لائنز پولیس اسٹیشن لے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں کارروائی، رینجرز کو فوج کی مکمل حمایت

ذرائع کے مطابق پولیس اسٹیشن میں رینجرز اہلکار کچھ دیر تک ان سے تفتیش کرتے رہے تاہم صورتحال اس وقت ڈرامائی ہوگئی جب بااثر شخصیات سے بحث کے بعد رینجرز نے اسد کھرل کو چھوڑ دیا اور علاقے سے چلی گئی۔

اس حوالے سے صوبائی حکومت اور پولیس کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

بہر حال ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد کھرل لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے اہم سیاسی رہنماؤں کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں اور لاڑکانہ میں ہر شخص یہ جانتا ہے کہ اسد کھرل کے سیال خاندان سے قریبی تعلقات ہیں۔

ایک ذریعے نے بتایا کہ جب بھی وزیر داخلہ سندھ سہیل انور خان سیال لاڑکانہ آتے ہیں اسد کھرل کو ان کے ہمراہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس کے علاوہ وہ انور سیال کے اہل خانہ کے ساتھ بھی اکثر نظر آتے ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ یہاں لاڑکانہ میں عام تاثر یہی ہے کہ رینجرز کو اسد کھرل کو تحویل میں لینے پر سندھ حکومت میں شامل لوگوں کی جانب سے مداخلت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔

اس معاملے پر صوبائی حکام خاموش نظر آرہے ہیں تاہم وہ اسد کھرل کی کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کی تردید میں پیش پیش ہیں۔

حیدرآباد میں جب وزیراعلیٰ کے مشیر مولا بخش چانڈیو سے بارشوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بات کاٹ دی لیکن اسد کھرل کے دفاع میں دلائل دینے لگے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسد کھرل مجرم ہوتا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے رہا نہیں کرتے۔

یہ خبر 14 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں