'سامعہ شاہد کا پہلا شوہر مجرمانہ ریکارڈ کا حامل'

اپ ڈیٹ 01 اگست 2016
28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین
28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین

گجرات: صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل ہونے والی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کے کیس کی تحقیقات کے دوران خاتون کے اہلخانہ کے ماضی کے حوالے سے کئی تفصیلات سامنے آگئیں۔

منگلہ پولیس کی حدود میں واقع گاؤں پندوری کے کچھ رہائشیوں نے صحافیوں کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کیس میں نامزد ملزم اور سامعہ کے پہلے شوہر چوہدری شکیل مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ چوہدری شکیل اس سے قبل پندوری کے قریب واقع گاؤں ڈھوک شاہی کے رہائشی گل زمان کو فائرنگ کرکے زخمی کرنے کے جرم میں 18 ماہ جیل کی سزا بھی کاٹ چکے ہیں۔

مذکورہ دعوے کی تصدیق منگلہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او عقیل عباس نے بھی کی اور بتایا کہ فائرنگ کا واقعہ زمین کے تنازع پر پیش آیا تھا۔

مزید پڑھیں:برطانوی خاتون کو پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے کا دعوٰی

چوہدری شکیل نے نومبر 2015 میں اپنے گاؤں سے جنرل کونسلر کی نشست پر بلدیاتی انتخابات میں بھی حصہ لیا، تاہم انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

گاؤں کے مکینوں کا کہنا تھا کہ سامعہ کی ایک پھپھو بھی 25 سال قبل اسی قسم کے حالات میں وفات پاگئی تھیں، کیوں کہ انھوں نے بھی اپنے شوہر سے طلاق لی تھی، جسے ان کے اہلخانہ قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔

بعدازاں مذکورہ خاتون اپنے والدین کے گھر میں مردہ پائی گئیں، جن کے حوالے سے ان کے بھائی چوہدری شاہد (سامعہ کے والد) اور دیگر اہلخانہ نے اعلان کیا کہ انھوں نے خودکشی کرلی ہے۔

علاقہ مکینوں کے مطابق یہ معاملہ اس وجہ سے دب گیا کیونکہ کسی نے بھی پولیس سے رابطہ نہیں کیا تھا، تاہم ایس ایچ او عقیل عباس کے مطابق وہ سامعہ کی پھپھو کی ہلاکت کے واقعے کے بارے میں علم نہیں رکھتے۔

یہ بھی پڑھیں: سامعہ کےشوہرکا پاکستانی،برطانوی حکومت سےانصاف کا مطالبہ

سامعہ کے شوہر سید مختار کاظم کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نامزد ملزم چوہدری شاہد نے ابتداء میں پولیس کو بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا انتقال گذشتہ ماہ 20 جولائی کو دل کے دورے کے باعث ہوا، تاہم ہفتہ 30 جولائی کو انھوں نے اپنا بیان تبدیل کرلیا اور سینئر پولیس افسران پر مشتمل انکوائری ٹیم کو بتایا کہ سامعہ نے خودکشی کی۔

دوسری جانب پندوری گاؤں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ 'سامعہ کے والد اور کزنز سمیت اس کے اہلخانہ علاقے میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کا بھی استعمال کرتے ہیں۔'

ڈان نے اس حوالے سے جاننے کے لیے چوہدری شاہد اور شکیل سے بھی رابطہ کیا تاہم ان کے موبائل فون بند ملے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایک انکوائری ٹیم نے ہفتہ 30 جولائی کو چوہدری شکیل کا بیان ریکارڈ کیا، جو 6 اگست تک عبوری ضمانت پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سامعہ کی گردن پر زخم کا نشان تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ

جبکہ تحقیقاتی ٹیم کیس کے دیگر 2 ملزمان چوہدری شاہد اور مبین کے ساتھ مدعی مختار کاظم کا بیان بھی ریکارڈ کرچکی ہے۔

کیس کی 2 خواتین ملزمان یعنی سامعہ کی والدہ امتیاز بی بی اور ان کی بہن مدیحہ شاہد نے ابھی تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروایا، جو مبینہ طور پر سامعہ کی وفات کے بعد پاکستان واپس آئیں۔

دوسری جانب چوہدری شکیل کے اس دعوے کے خلاف کہ 'سامعہ اپنی وفات تک ان کی بیوی تھی'، خاتون کے دوسرے شوہر سید مختار کاظم نے انویسٹی گیشن ٹیم کو سامعہ کی طلاق کے کاغذات اور ان سے اپنی شادی کا سرٹیفیکٹ بھی پیش کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی خاتون کا غیرت کے نام پر 'قتل': والدین پر مقدمہ

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے مذکورہ دستاویزات کو برطانیہ سے تصدیق کے لیے وزارت داخلہ کو بھجوا دیا ہے، جو دفتر خارجہ سے رابطہ کرے گی اور پھر برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے متعلقہ افسران کو تصدیق کا کام سونپا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جہلم پولیس نے لاہور کی فرانزک لیبارٹری سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ سامعہ کے جسم کے نمونوں کا تجزیہ مکمل کرلے تاکہ ان کی موت کی وجہ کا تعین کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ کیس بین الاقوامی توجہ کا مرکز ہے، لہذا ڈی آئی جی ابو بکر خد ابخش کی سربراہی میں کام کرنے والی تحقیقاتی ٹیم چاہتی ہے کہ اس کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کرلی جائے۔

یہ خبر یکم اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں