نہ مائے، نہ بھیج مجھے، میں نئیں جاناں پردیس ۔ ۔ ۔

نہ مائے، نہ بھیج مجھے، میں نئیں جاناں پردیس ۔ ۔ ۔

جس رانجھے سنگ سانس جڑی ہو، وہ رانجھا ہے اُس دیس رے ۔ ۔ ۔

میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال ۔ ۔ ۔

مائے، میں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال ۔ ۔ ۔

یہ گانا سن کر بہت سے لوگوں پر ایک عجب سا سحر طاری ہوجاتا ہے، وہ بھی ایسا ہی ایک دن تھا جب میں نے ایک نامعلوم گلوگار کی آواز میں یہ گانا سنا اور پھر اس آواز کی کھوج مجھے اعجاز خواجہ تک لے آئی۔

اعجاز اپنوں سے کوسوں میل دور دیارِ غیر میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں لیکن ساتھ ساتھ اپنے گانے کا شوق بھی پورا کرتے ہیں۔

آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے اعجاز ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں جو تلاش روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں لیکن ان کا دل یہیں کہیں ہے۔

اعجاز کی آواز میں ایک درد ہے، ایک خوبصورتی ہے۔

وہ گذشتہ ایک برس سے دبئی میں ہیں اور ایک کریڈٹ کارڈ کمپنی میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی موسیقی کا شوق بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اعجاز یو اے ای کی سطح پر کئی مقابلے بھی جیت چکے ہیں، لیکن یہ شوق ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔

انھوں نے بتایا، 'میں پہلے ایک ہوٹل کے فرنٹ ڈیسک پر ملازمت کرتا تھا، لیکن وہ لوگ مجھے موسیقی کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے چھٹی نہیں دیتے تھے، جس پر میں اپنی جگہ کسی اور کو فرنٹ ڈیسک پر کھڑا کرکے جاتا اور اسے اپنی جیب سے پیسے ادا کرتا تھا'۔

اعجاز نے متحدہ عرب امارات میں مزدوروں کے لیے کام کرنے والی ایک ہندوستانی این جی او اسمارٹ لائف فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام موسیقی کے مقابلے میں حصہ لیا، جہاں 24 امیدواروں میں سے انھوں نے اول انعام حاصل کیا۔

انھوں نے کچھ عرصہ ایک بینڈ کے ساتھ بھی گایا اور پھر اجی واسان سروں کا مقابلہ (Ajivasan’s Suron Ka Muqabla) میں بھی حصہ لیا اور یہ مقابلہ جیتا۔

ان مقابلوں میں شرکت رنگ لے آئی اور انھیں یو اے ای میں ہندوستان کے ایک چینل زی ٹی وی کے ڈرامہ سیریل 'پرواز' کا ٹائٹل سانگ گانے کا موقع ملا۔

اعجاز کے اہلخانہ اسلام آباد میں مقیم ہیں اور انھوں نے آرٹس میں گریجویشن کر رکھی ہے، لیکن وہ مجبوری معاش کی وجہ سے اپنے گلوگاری کے شوق کو پروفیشن نہیں بنا سکتے۔

اعجاز کا کہنا ہے کہ وہ گلوکاری کو اپنا پروفیشن بنانا چاہتے ہیں، لیکن انھیں کوئی ذریعہ یا موقع نہیں مل رہا، جو ان کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں ان کی مدد کرسکے۔

پاکستان میں انھوں نے نعت خوانی کے متعدد مقابلے جیتے، وہ چاہتے ہیں کہ اگر انھیں کوئی پلیٹ فارم مل جائے تو وہ نوکری چھوڑ کر میوزک کا شوق پورا کریں۔

اعجاز کےمطابق وہ پاکستان آئیڈل میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ یہاں ٹیلنٹ کی ناقدری کے حوالے سے کچھ فکرمند بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ملک سے باہر پھر بھی چانس مل جاتا ہے، لیکن پاکستان میں چانس ملنا بہت مشکل ہے' ۔

ہمارے ملک میں واقعی ٹیلنٹ کی کمی نہیں، لیکن انھیں پہچاننے اور موقع دینے میں ہم دیر کردیتے ہیں، عدنان سمیع خان ہو، راحت فتح علی خان یا عاطف اسلم یہ سچ ہے کہ ان گلوگاروں کے ٹیلنٹ کو اصل میں ہندوستان میں ہی پہچانا گیا اور اس کے بعد یہاں بھی انھیں پذیرائی ملنی شروع ہوئی۔

میں ناامید نہیں ہو کہ جلد ہی پاکستان میں اعجاز کو بھی کوئی قدردان مل جائے گا، جو ان کے فن کو پہچان کر اس ہیرے کو تراش سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Basit Khawaja Aug 12, 2016 09:01am
ما شا اللہ جی بہت اچھا۔۔۔