فائل فوٹو۔۔۔۔۔

پاکستانی معیار کے مطابق حکومت ذاتی خواہشات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور پولیس بدستور اس کانٹ چھانٹ کی ایک مثال ہے۔

حکمرانوں کی ضروریات کے مطابق مختلف اقسام کی سکیورٹی خدمات کی یقینی فراہمی کے دوران سینئر پولیس افسران عوامی بے توقیری کا بھی نشانہ بنتے ہیں اور ایسا ہونا معمول ہے۔ ان کی تقرریاں یا تواقتدار تک پہنچنے کے لیے کی جاتی ہیں یا پھر اس کے برعکس صاحبانِ اقتدار سے ان کی قرابت کا اظہار ہوتی ہیں۔

حال ہی میں پنجاب کے محکمہ پولیس میں ہونے والی تقرریوں اور تبادلوں میں بھی من پسند افسران، من چاہی پوسٹنگ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اب جب کہ وہ وزارتِ اعلیٰ کی اگلی مدت مکمل کرنے کے لیے واپس پہنچ چکے تو پھر ایسا ہونا ناگزیر تھا کہ شہباز شریف کے پچھلے دورِ حکومت میں جو متعدد پرانے چہرے اہم عہدوں پر تعینات تھے، انہیں واپس وہیں لے آیا جائے۔

اسلام آباد اور لاہور کے اقتدار پر متمکن پاکستان مسلم لیگ ۔ نون کو بھاری مینڈٹ ملا بالخصوص پنجاب سے۔ ایسے میں ان پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو پالیسی کے معنوں میں زیادہ بہتر طرزِ حکمرانی فراہم کریں۔

اس کے علاوہ، پنجاب میں حکمراں جماعت سے منسلک ایسے قانون سازوں کی بھی بھرمار ہے جو جانتے ہیں کہ مقامی سطح پر کس طرح معاملات چلائے جاتے ہیں اور یہ خود اپنی ہی حکومت کے واسطے بھی انتظامی مسائل کھڑے کرتے ہیں۔

 ان سخت حالات میں کہ جب اُن میں سے زیادہ تر کو پُرکشش عہدے، جیسا کہ وزارت کا قلمدان، سونپنا ممکن نہ ہو تو پھر انہیں ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یوں اُن قانون سازوں کی سب سے کم تر خواہش یہ رہ جاتی ہے کہ حلقہ انتخاب میں اُن کے من پسند سرکاری افسران تعینات کیے جائیں۔

 ایسے میں سب سے بُلند حکومتی رتبے پر فائز شخص کے ہاتھوں ہی انصاف اور میرٹ کا کھلواڑ ہوتا ہے تاکہ وہ منتخب اراکین روایتی انداز میں، اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے انتظامی نظام پر قابلِ غور رسوخ و اختیار حاصل کرسکیں۔

اب اگر پولیس کا کردار ایسا ہوگا تو یہ کس طرح ہوسکے گا کہ ان سے کم سے کم کوتاہیاں اور خلاف ورزیاں سرزد ہوں۔

 یہ سوچ تبدیل ہونی چاہیے۔ سیاسی اثر سے پاک اور ذمہ داریوں کی طرف رخ موڑنے سے ہی خود مختار پولیس فورس جنم لے گی اور یہی کلیدی نکتہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں