بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما کا رحم کی اپیل سے انکار

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2016
جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
جماعت اسلامی کے رہنما میر قاسم علی کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کو مالی مدد فراہم کرنے والے بزنس ٹائیکون نے ملک کے صدر سے معافی مانگنے سے انکار کردیا ہے، جس کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی سزائے موت پر جلد عمل درآمد کرادیا جائے گا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی ایک رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی کے اہم رہنما میر قاسم علی کو 1971 کی جنگ میں مختلف الزام کے تحت جنگی جرائم کے لیے قائم ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔

رواں ہفتے سپریم کورٹ نے ان کی سزائے موت کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل مسترد کردی تھی جس کے بعد جماعت اسلامی کے رہنما نے بنگلہ دیشی صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی

یاد رہے کہ رحم کے لیے کی جانے والی اپیل کی صورت میں انھیں 1971 کی جنگ کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کو قبول کرنا ہوگا، جس سے جماعت اسلامی اور ان کے رہنما نے انکار کرتے ہیں۔

قاسم پور کی ہائی سیکیورٹی جیل کے سینئر افسر پراسناتا کمار نے بتایا کہ 'آج قاسم علی نے ملک کے صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کردیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جماعت اسلامی کے رہنما کے انکار کے بعد حکام ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے حتمی تاریخ کا فیصلہ کررہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی اور بی این پی رہنماؤں کو پھانسی

بنگلہ دیش کے بزنس ٹائیکون میر قاسم علی کو 2014 میں ٹرائل کے دوران سزائے موت سنائی گئی تھی، ان پر الزام ہے کہ وہ متعدد افراد کے قتل اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔

اپنے والد کی سزائے موت کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ان کے بیٹے میر احمد قاسم کو گذشتہ ماہ سیکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر اغوا کرلیا تھا، وہ اپنے والد کی لیگل ٹیم کا حصہ بھی تھے۔

مقامی پولیس چیف ہارون رشید نے بتایا کہ قاسم علی کی جانب سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کے بعد دارالحکومت ڈھاکا سے 40 کلومیٹر پر قائم جیل کی سیکیورٹی کو مزید سخت کردیا گیا ہے، جہاں وہ قید ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک گروپ نے گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش کی حکومت سے میر قاسم علی کی سزائے موت کو روکنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف بین الاقوامی معیار کے مطابق ٹرائل چلایا جائے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعتِ اسلامی کے رہنماء کو پھانسی کی سزا

خیال رہے کہ اس سے قبل بنگلہ دیش کے 5 اپوزیشن رہنماؤں کو پھانسی دی جاچکی ہے، ان کی سزائے موت پر سپریم کورٹ کی جانب سے اپیل مسترد کیے جانے ایک روز بعد ہی عمل درآمد کرادیا گیا تھا، ان میں 4 کا تعلق ملک کی اہم سیاسی جماعتوں سے تھا۔

بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد نے حکومت کے قیام کے ساتھ ہی 2013 میں 1971 کی جنگ کے حوالے خصوصی جنگی ٹرائل کورٹ قائم کردی تھی، جن کا مقصد 1971 کی جنگ کے کرداروں کو سزائیں دینا تھا۔

تاہم مقامی سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ ٹرائل کورٹ کے ذریعے بنگلہ دیش کے اپوزیشن رہنماؤں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں