ایکٹر ان لا : توقعات پر پوری اتر سکے گی؟

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2016
— پبلسٹی فوٹو
— پبلسٹی فوٹو

عیدالضحیٰ پراس مرتبہ تین پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے سینما گھروں میں پیش کی گئیں،جن کے نام ”زندگی کتنی حسین ہے“اور”جانان“ کے علاوہ ”ایکٹر اِن لا“ہیں۔ امید یہ کی جارہی ہے،ان تینوں میں سے فلم”ایکٹراِن لا“زیادہ کامیابی حاصل کرے گی،جس کی وجہ اس فلم کامنفرد موضوع ہے۔

یہ ہلکے پھلکے انداز میں بنائی گئی ایسی فلم ہے،جس میں عوام کی تفریحی دلچسپی کوبھی مدنظر رکھاگیاہے، اس کی کہانی سماجی مسائل کاحل،انصاف کی بروقت فراہمی،ادھورے خوابوں اورتشنہ آرزوﺅں کی تکمیل سمیت کئی موضوعات کااحاطہ کرتی ہے۔

یہ فلم پاکستان سمیت کئی ممالک میں نمائش کے لیے بیک وقت پیش کردی گئی ہے۔پاکستان کے مختلف شہروں اوردبئی میں اس کے پریمیئرشوز بھی ہوئے۔

لیکن کیا یہ فلم واقعی ایسی ہے ،جو باکس آفس پر کامیاب ہوسکے گی؟ تو اس کے لیے ذرا تفصیل میں جاناپڑے گا۔

کہانی وکردار:

فلم کی کہانی نئی نہیں،مگراس کوپیش کرنے کاانداز بہت دلچسپ ہے۔

ایک نوجوان(فہدمصطفی) جس کو وکالت کاپیشہ والد سے وراثت میں ملا ہے، مگروہ اداکار بننا چاہتا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اس شوقیہ اداکار کوجب شوبزمیں کہیں موقع مناسب موقع نہیں ملتا تو پھر وہ ورثے میں ملے ہوئے پیشے کے ذریعے ہی اپنے فن کو ثابت کردکھاتا ہے،یعنی عدالت میں فنکاریاں دکھاتا ہے۔

اس جدوجہد میں پہلے وہ خودہمت کرتا ہے،پھرعوام اس کے ساتھ شامل ہوتے ہیں،آخرمیں اس کاسخت گیر باپ (اوم پوری)بھی بیٹے کی انسان دوست کوششوں کاقائل ہوکراس سے کاندھے سے کاندھا ملاکرکھڑا ہوجاتا ہے۔ فلم میں بانی پاکستان ،قائداعظم محمد علی جناح کی اداکاری سے دلچسپی کوبھی موضوع بنایاگیا،یہ ایک اچھی تحقیق ہے،ہمارے ہاں اکثریت قائد اعظم کے اس پہلو سے واقف نہیں ہے۔

فلم غور سے دیکھی جائے توکہانی تین حصوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے، پہلا اور آخری حصہ دلچسپ ہے، درمیانی حصے پر کہانی کارکی گرفت کمزور پڑگئی۔کہانی میں پاکستان کے میڈیا کی شمولیت ایک منفرد پہلو تھا،مگرکہانی نویس نے غیرحقیقی انداز میں اس کو لکھ کر ضائع کردیا۔

کہانی لکھتے وقت ہندوستانی سینما کی سوشل فلموں کوسامنے رکھاگیاہے،شاید یہی وجہ ہے اس فلم کی کہانی پربولی ووڈ غالب ہے، پھربھی فلم کی پیشکش کاانداز اچھا ہونے کی وجہ سے فلم دیکھی جاسکتی ہے۔

فلم کے کرداروں میں سب سے مضبوط کردار اوم پوری کا ہے ،جو وکیل بنے ہیں،اگروہ اس فلم کاحصہ نہ ہوتے،توشاید کہانی کے جذباتی مناظر کو سنبھالنا زیادہ مشکل ہوتا، فلم میں ان کی جاندار اداکاری شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی ہے۔ فلم کادوسرا اہم کردار فہد مصطفی نے اداکیاہے،وہ ایک شوقیہ اداکاربنے ہیں۔

مزید پڑھیں : کبھی کام مانگنے نہیں گیا: اوم پوری

ان کی اداکاری متوازن ہے،لیکن اگر وہ یونہی اداکاری کرتے رہے،توان پر مخصوص اداکار ہونے کی چھاپ لگ جائے گی ،جس طرح پڑوسی ملک میں شاہ رخ ایک خاص قسم کے کرداروں میں پھنس گئے ہیں۔

فلم کاتیسرامرکزی کردار مہوش حیات نے اداکیاہے،جوایک ٹی وی چینل کی رپورٹر بنی ہیں۔

اس کردار کوجتنا غیر حقیقی انداز میں لکھاگیا،اس سے بھی زیادہ برے طریقے سے مہوش حیات نے اداکیا۔ انگریزی میں اس کو ”اُوورایکٹنگ“ بھی کہا جاتا ہے، بری اداکار ی پر اگر اس فلم کوکوئی اعزاز ملا،تومہوش حیات اس کی مستحق ہوں گی۔

اداکاری کے لیے صرف خوبصورتی کافی نہیں ہوتی،یہ بات ان کو سمجھ لینی چاہیے۔فلم کاایک اورکردار سلیم معراج نے بھی کیا ہے،جنہوں نے مختصر کردارمیں بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔فلم کے دیگر ذیلی کرداروں میں علی خان،عرفان موتی والا،صبورعلی،سیف حسن،نیراعجاز،ریحان شیخ ،طلعت حسین، نورالحسن، لبنی اسلم، راشدخواجہ، خالد احمد، احسن طالش، محمودسلطان، طارق جمیل، کامران مجاہد، اسلم شیخ، ثنابچہ، انوشے عباسی اوردیگر شامل ہیں۔ان تمام فنکاروں نے اپنااپناکام بخوبی نبھایاہے۔کچھ حقیقی صحافیوں کو بھی فلم میں اپنے اداکارانہ جوہر دکھانے کاموقع دیاگیا،جس کاتجربہ دلچسپ رہا۔

فلم سازی وہدایت کاری:

فلم کا کراچی میں پریمیئر —فوٹو بشکریہ لکھاری
فلم کا کراچی میں پریمیئر —فوٹو بشکریہ لکھاری

اس کی فلم ساز اورکہانی نویس فضاعلی مرزا ہیں،جنہوں نے اس سے پہلے فلم ”نامعلوم افراد“بھی بنائی تھی۔گزشتہ فلم کی طرح یہ فلم بھی باکس آفس پرکامیابی حاصل کرے گی،کیونکہ فلم میں تمام مصالحے شامل ہیں۔ تشہیر کے لیے جتنے جدید طریقے اختیار کیے جانے چاہییں، ان کوبھی استعمال کیاہے، حتیٰ کہ ہندوستانی اداکاروں کی ہمارے ہاں جو پسندیدگی کاعنصرہے، اس کو بھی اوم پوری کی صورت میں کیش کرانے کی کامیاب کوشش کی۔

دبئی میں فلم کا پریمئیر — فوٹو بشکریہ لکھاری
دبئی میں فلم کا پریمئیر — فوٹو بشکریہ لکھاری

نبیل قریشی نوجوان ہدایت کار ہیں،ان کی ہدایت کاری کاشعبہ کافی مضبوط رہا۔کرداروں کی تقسیم، مناظر کی ایڈیٹنگ، لائٹنگ، شوٹنگ کے لیے جگہوں کاانتخاب،ڈریسز،ساﺅنڈسمیت تمام پہلوﺅں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،سوائے اس بات کے، سماجی مسائل کوجس طرح بولی ووڈ انداز میں فلماکرحل کرنے کی کوشش کی گئی ،وہ نہ توکبھی ہندوستان میں حل ہوسکے اورنہ ہی یہاں ہوں گے،سوشل موضوعات کاتقاضایہ ہوتاہے،حقیقت سے قریب رہ کر فلم بنائی جائے،جس میں کہانی نویس اورہدایت کار کاکلیدی کردار ہوتاہے،صرف ”فینٹسی“سے گزارا نہیں ہوگا۔ فلم میں کہیں کہیں باریک غلطیاں بھی ہیں ،مثال کے طورپر شان مرزا(فہدمصطفی) مینا اسکرو والا(مہوش حیات)کو ویسپا پر ان کے گھر پہنچانے جارہے ہوتے ہیں،راستے میں اسکوٹر خراب ہونے پر وہ دونوں رات بھر اسکوٹر کے ہمراہ پیدل چلتے رہتے ہیں،حتیٰ کہ اگلادن طلوع ہوجاتاہے۔

موسیقی:

فلم میں موسیقار نام کی توکوئی چیز نہیں ہے،البتہ شانی ارشد نے بیک گراﺅنڈ اسکور کے علاوہ ایک ٹائٹل سونگ کمپوز کیاہے،جس کو گایابھی خود ہے۔ وہ نئے موسیقار ہیں، ان کا کوک اسٹوڈیو میں کیاہواکام قابل تعریف ہے،مگرفلمی موسیقی کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے کافی وقت چاہیے۔ فلم میں دیگر دو گیت عاطف اسلم اورراحت فتح علی خان کے ہیں ۔عاطف کاگانا بھرتی کاہے،جس کو فلم میں شامل ہونے کی وجہ سے زبردستی سننا پڑے گا۔ راحت فتح علی خان کاگیت اچھا ہے۔گیت نگاروں کے بارے میں بھی کوئی تفصیل نہیں ملتی،کس نے کون ساگیت لکھاہے۔اس فلم موسیقی کے متعلق بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں ،توبہتر ہے۔

نتیجہ:

پاکستانی جدید سینما کے عہد میں ایسی فلموں کی ضرورت ہے،جن کوباکس آفس پر کامیابی حاصل ہوسکے،اس فلم کاشمار ایسی فلموں میں ہی ہوگا،لیکن اگر فلم سازی میں فارمولے کوتخلیق پر ترجیح نہ دی گئی،توفلمی صنعت کایہ عروج وقتی ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے ،پڑوسی ملک میں فارمولااورغیرفارمولا دونوں طرح کی فلم سازی ہورہی ہے،جس سے ہمارے فلم بین واقف ہیں،اس لیے انہیں آپ زیادہ دیر تک اندھیرے میں نہیں رکھ سکیں گے۔

تبصرے (5) بند ہیں

سید مہتاب شاہ Sep 14, 2016 06:57pm
میں کافی تذبذب کا شکارتھا کہ بڑے عرصے کے بعد ایک ساتھ تین پاکستانی فلمیں اکھٹی آرھی ہیں اب کونسی فلم پہلی فرصت میں دیکھی جائے تو جناب خرم سہیل صاحب کے بہتریں اور بے لاگ تبصرے نے کم ازکم میری یہ مشکل تو آسان کردی ،بہت شکریہ خرم سہیل بھائی
rizwan Sep 14, 2016 07:03pm
story is outstanding and music is outshining.
rizwan Sep 14, 2016 07:05pm
great music and great story.
shahzad ali Sep 14, 2016 07:44pm
acting or om puri kamal hai
محمد اقبال خان Sep 15, 2016 05:30pm
تحریر پڑھ کہ یہ احساس ھوا کے ہماری فلم انڈسٹری کو ھندوستانی انڈسٹری سے جوڑنے والے نقاد حضرات ناجانے کیوں بھول جاتے ھین کے انڈین تہذیب اور پاکستانی ثقافت میں بہت فرق ھے ۔ آپ کا سنسر بورڈ پاکستان میں وہ فلم بننے ھی نھین دیتا جو آپ چاہتے ھین۔۔۔۔۔