ترکی میں 20 ریڈیو اور ٹی وی چینلز بند

01 اکتوبر 2016
ترک صدر طیب اردگان تین ماہ کے لیے نافذ ایمرجنسی میں توسیع چاہتے ہیں—فوٹو/رائٹرز
ترک صدر طیب اردگان تین ماہ کے لیے نافذ ایمرجنسی میں توسیع چاہتے ہیں—فوٹو/رائٹرز

استنبول: ترکی میں حکومت نے 20 ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلز کی بندش کے احکامات جاری کردیے جن میں ایک بچوں کے پروگرامز نشر کرنے والا ایک چینل بھی شامل ہے۔

ترکی کے سرکاری ادارے ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن سپریم کونسل کے ایک عہدے دار نے اس بات کی تصدیق کی کہ حکومتی احکامات کے بعد 20 ٹی وی اور ریڈیو اسٹیشنز کو بند کردیا گیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حکومت نے مذکورہ ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر ’دہشت گردی پر مبنی پروپیگنڈہ‘ کرنے کے الزامات عائد کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک

واضح رہے کہ جولائی میں ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی تھی تاہم حال ہی میں انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ ایمرجنسی کی مدت میں توسیع چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے پیچھے کار فرما عناصر اور کرد شدت پسندوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مزید وقت درکار ہے۔

آئی ایم سی ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر حمزہ احسن کے مطابق جن چینلز پر پابندی عائد کی گئی ہیں ان میں سے زیادہ تر چینلز کردوں اور علوی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے زیر انتظام تھے۔

حکومتی احکامات جاری ہونے کے بعد پولیس نے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر چھاپے مارے اور انہیں سیل کردیا۔

پابندی کا سامنا کرنے والے ٹی وی چینلز میں گوویند ٹی وی بھی شامل ہے جو لوک گیتوں پر مبنی پروگرامز نشر کرتا ہے جبکہ کرد زبان میں کارٹون نشر کرنے والے زاروک ٹی وی کو بھی بند کردیا گیا۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے روبرٹ ماہونے کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت کو بچوں کے پروگرامز بھی قومی سلامتی کے لیے خطرہ لگنے لگیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہی ہے‘۔

ترک صدر طیب اردگان کا موقف ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوجی بغاوت کے حامیوں کے خلاف کارروائی میں آسانی ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن

واضح رہے کہ ترکی جولائی میں ہونے والی بغاوت کی ناکام سازش کا ذمہ دار امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے مبلغ فتح اللہ گولن پر عائد کرتا ہے جس میں 240 فوجی، پولیس اور عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اس کے علاوہ بغاوت میں شامل 100 افراد کو بھی ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ سیکڑوں زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس کے بعد سے بغاوت کی کوشش میں کسی نہ کسی طرح کردار ادا کرنے اور گولن تحریک سے وابستگی کے الزام میں ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کو عہدے سے برطرف کیا گیا جبکہ 32 ہزار کے قریب افراد کو جیل بھی بھیجا گیا تاہم فتح اللہ گولن بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے سے انکار کرچکے ہیں۔

مزید برآں ترک حکام بغاوت کی کوشش کے بعد شروع کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں میڈیا کو بھی نشانہ بناچکے ہیں اور درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور کئی میڈیا اداروں کو بند کیا جاچکا ہے۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں