اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی رہنما شیریں مزاری کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف دائر پٹشین کو مسترد کردیا۔

شیریں مزاری نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں خواجہ آصف کی جانب ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کا لفظ استعمال کرنے پر ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ وزیر دفاع نے ہتک آمیز جملے استعمال کیے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

جسٹس اتھر من اللہ نے خواجہ آصف کے خلاف شیریں مزاری کی پٹیشن کی سماعت کی اور اس دوران انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے شیریں مزاری کے خلاف بیانات پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھے جس میں عدلیہ مداخلت نہیں کرتی۔

عدالت نے شیریں مزاری کے وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت میں وہ پٹیشن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے دلائل پیش کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف نے شیریں مزاری کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کہہ دیا

شیریں مزاری کے وکیل شعیب رزاق نے پچھلی سماعت میں موقف اختیار کیا تھا کہ یہ معاملہ ہتک عزت کا ہے اور وزیر دفاع کی جانب سے شیریں مزاری کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا گیا۔

یاد رہے کہ 9 جون کو قومی اسمبلی میں اُس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا تھا جب خواجہ آصف کے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہونے کے بیان پر اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی شروع کردی اور ’نو، نو‘ کے نعرے لگائے۔

حکومت اور اپوزیشن اراکین کی اسی گرما گرمی کے دوران خواجہ آصف نے اپوزیشن بنچوں سے سب سے اونچی آواز میں نعرے لگانے والی شیریں مزاری کو ’ٹریکٹر ٹرالی‘ کہتے ہوئے اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق سے کہا کہ ’انہیں چپ کرائیں‘۔

اس واقعے کے بعد خواجہ آصف کو مختلف سیاسی رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ شیریں مزاری کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا کہ اگر خواجہ آصف میں ’شرم و حیا‘ ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ کسی خاتون سے کس طرح پیش آتے ہیں، لیکن وہ بے شرم اور بے حیا ہیں، جبکہ اتفاق سے میری آواز بھی ان سے بلند ہے۔

جس کے بعد خواجہ آصف نے پہلے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو تحریری معافی نامہ بھجوایا اوربعدازاں ایوان میں شیریں مزاری کا نام لیے بغیر باقاعدہ معافی مانگتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اس پر معافی مانگتے ہیں اور انھیں امید ہے کہ ان کے جذبات کو قبول کیاجائے گا۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف کو 10 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ کے اپنے طور پر غیر مشروط معافی مانگ رہے ہیں، ساتھ ہی خواجہ آصف نے کہا کہ وہ شکر گزار ہوں گے اگر یہ معاملہ یہیں ختم کردیا جائے۔

تاہم شیریں مزاری نے خواجہ آصف کی باقاعدہ معافی کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں ان کا نام لے کر طنز کیا گیا اور جملے کسے گئے، لہذا مناسب یہی تھا کہ ان کا نام لے کر معافی مانگی جاتی۔

بعد ازاں شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں اپنے لیے غیر شائستہ الفاظ کے استعمال پر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کو 10 کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوانے کے ساتھ ساتھ معافی مانگنے کا مطالبہ کردیا تھا۔

خواجہ آصف کو بھجوائے گئے قانونی نوٹس میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وزیردفاع نے قومی اسمبلی میں ان کے خلاف جو الفاظ استعمال کیے اس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

اس کے بعد شیریں مزاری کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی تھی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ خواجہ آصف نے ان کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی اور عدالت سے مطالبی کیا گیا کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات دے کہ وہ وزیر دفاع کی نااہلی کے لیے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ خواجہ آصف کے ریمارکس تعذیرات پاکستان کے سیکشن 500 کے تحت مجرمانہ نوعیت کے ہیں اور انہوں نے زبانی طور پر شیریں مزاری کو ہراساں کیا۔

شیریں مزاری نے درخواست میں موقف اپنایا کہ خواجہ آصف نے اپنے بیانات کے ذریعے مقام کار پر غیر موافق ماحول پیدا کیا اور کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے سے تحفظ کے ایکٹ 2010 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔


تبصرے (0) بند ہیں