پیرس: 2030 تک کینسر سے سالانہ 55 لاکھ خواتین ہلاک ہوں گی، آئندہ 15 سال میں اس مرض کی شرح میں 60 فیصد اضافہ ہو گیا، جس کے بعد سرطان تقریباً ڈنمارک کی آبادی کے برابر خواتین کو اپنا نشانہ بناسکتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق عالمی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ، اس مرض کا شکار ہونے والوں میں بڑی تعداد غریب اور درمیانے درجے کے ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہوگی، لیکن رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ان میں سے کینسر کی زیادہ تر اقسام ایسی ہوں گی جن سے بچاؤ ممکن ہے۔

امریکی کینسر سوسائٹی میں عالمی صحت کی سینئر نائب صدر سیلی کوال کے مطابق، ’زیادہ تر اموات جوان اور درمیانی عمر کے افراد کی ہوتی ہیں‘ جس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ قومی معیشت پر بھی بوجھ پڑتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تجزیہ ’ وسائل کی فراہمی، حفاظتی تدابیر اور کینسر کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نمٹنے کی راہ میں حائل جغرافیائی عدم مساوات پر روشنی ڈالتا ہے‘۔

رپورٹ کے مطابق کینسر دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک خاتون کی جان لے رہا ہے، اور دل کی بیماریوں کے بعد موت کی دوسری بڑی وجہ کینسر بنتا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ پھیپھڑوں کا سرطان، بڑی آنت کا سرطان، چھاتی کا سرطان یا سروائیکل کینسر، سرطان کی ان چاروں جان لیوا اقسام سے بچاؤ یا ان کی تشخیص ابتدائی مراحل میں ممکن ہے، جس سے علاج میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کینسر کی 5 ابتدائی انتباہی علامات

امیر ممالک کی نسبت غریب ممالک میں کیسز کی تشخیص اور علاج کی شرح بہت کم ہے، جس کے باعث اموات کی تعداد زیادہ ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں صحت کی بنیادی سہولیات ملنے کی وجہ سے چونکہ لوگوں کی عمر طویل ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے بھی کینسر کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کی خواتین ’تیزی سے تبدیل ہوتی معیشت‘ سے پیدا ہونے عوامل جن میں جسمانی کارکردگی میں کمی، غیر صحت بخش غذا، اور موٹاپے کی وجہ سے بھی کینسر کے خدشے کا شکار ہیں، ان تمام تبدیلیوں کی وجہ سے کینسر کی وہ اقسام جو پہلے صرف زیادہ کمائی رکھنے والے ممالک میں پائی جاتی تھیں اب پھیلتی جارہی ہیں۔

’عالمی سطح پر خواتین میں سرطان‘ کے نام سے جاری یہ رپورٹ پیرس میں ورلڈ کینسر کانگریس کے موقع پر پیش کی گئی۔

کینسر پر ریسرچ کی بین الاقوامی ایجنسی کے مطابق 2012 میں دنیا بھر میں کینسر کے 67 لاکھ کیسز سامنے آئے, جبکہ 35 لاکھ خواتین اس مرض کے باعث چل بسیں۔


یہ خبر 2 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں