استنبول: ایک انٹرنیٹ مانیٹرنگ گروپ کا کہنا ہے کہ ترکی میں سوشل میڈیا سائٹس ٹوئٹر اور واٹس ایپ تک رسائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ اقدام حال ہی کردوں کے حامی 11 قانون سازوں کی گرفتاری کے بعد اٹھایا گیا۔

مانیٹرنگ گروپ کے مطابق ان ویب سائٹس کو اس طرح سے روکا گیا کہ ناقابل استعمال حد تک ان تک رسائی ناممکن ہوگئی۔

قانون سازوں کی گرفتاریوں کے بعد سے صارفین کو فیس بک استعمال کرنے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔

یاد رہے کہ رواں برس 15 جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ملک میں جاری کریک ڈاؤن کے دوران فوج، سول سروس، پولیس اور عدلیہ میں سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو معطل یا فارغ کیا جاچکا ہے جبکہ 32 ہزار سے زائد افراد کو بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:ترکی میں 20 ریڈیو اور ٹی وی چینلز بند

اس سے قبل گذشتہ ماہ یکم اکتوبر کو ترک حکومت نے 20 ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلز کی بندش کے احکامات جاری کیے تھے جن میں بچوں کے پروگرام نشر کرنے والا ایک چینل بھی شامل تھا، ان چینلز پر ’دہشت گردی پر مبنی پروپیگنڈہ‘ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

دوسری جانب بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی تھی تاہم بعدازاں انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ ایمرجنسی کی مدت میں توسیع چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، 265 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے پیچھے کار فرما عناصر اور کرد شدت پسندوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مزید وقت درکار ہے۔

ترک صدر طیب اردگان کا موقف ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوجی بغاوت کے حامیوں کے خلاف کارروائی میں آسانی ہورہی ہے۔

ترکی کی جانب سے اس کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ اردگان ناکام بغاوت کو مشتبہ کرد عسکریت پسندوں کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں