پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے خوف کی وجہ سے نصاب میں بہتری کے لیے تین اہم ترین مضامین کی نصابی کتابوں کا جائزہ لینے والا منصوبہ موخر کردیا، صوبائی حکومت نے نصاب میں بہتری کے لیے ایک سال قبل وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر جائزہ منصوبہ شروع کیا تھا۔

سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے دباؤ کی وجہ سے محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا نےاردو، اسلامیات،اور سماجیاتی علوم کے کتابوں کا جائزہ لے کر نصابی تبدیلیاں کرنے کا منصوبہ موخر کیا، محکمہ ایلمینٹری ایجوکیشن کے حکام کے مطابق نصابی تبدیلیاں نہ کرنے کی وجہ سے طلبہ مسائل سے دوچار ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچوں کو ’غیر مہذب‘ کہنے کے خلاف تحقیقات

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ نصابی کتابوں کا جائزہ لینے کے بعد اہم تبدیلیاں کرنے کا منصوبہ ٹیکسٹ بک بورڈ خیبرپختونخوا،ڈائریکٹوریٹ آف کریکیولم اوراساتذہ کی تعلیم والے اداروں نے مشترکہ طور پر شروع کیا تھا،جس کے تحت نرسری سے 12ویں جماعت تک کے نصاب میں اہم تبدیلیاں کرکے بہتری لانے کا منصوبہ تھا ۔

نرسری سے 12ویں جماعت کے جن مضامین کا جائزہ لے کر نصابی تبدیلیاں کی گئی ہیں ان میں ریاضی،جنرل سائنس، انگریزی،کیمسٹری، فزکس اور بائیولاجی کے مضامین شامل ہیں،جب کہ طاقتور ترین سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے دباؤ کی وجہ سے اردو، اسلامیات اور سماجی علوم کے مضامین کا جائزہ لے کر تبدیلی لانے کا منصوبہ موخر کردیا گیا۔

مزید پڑھیں:پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

محکمہ ایلیمنٹری سیکنڈری ایجوکیشن نےاسلامیات، اردو اور سماجی علوم کے مضامین تبدیلیوں سے مستثنیٰ قرا دے دیئے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے اہم عہدے پر فائز اہلکار کے مطابق جدید دور کے تقاضوں اور طلبہ کی ضروریات کے مطابق جب کتابوں کے باب یا عنوانات تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو طاقتور سیاسی مذہبی پارٹیاں محکمہ تعلیم کے خلاف گلیوں میں نکل آئیں اور نصاب میں تبدیل نہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

سرکاری اہلکار کا کہنا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں نصابی کتابوں میں مزید بہتری لانے کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں تاکہ طلبہ کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاسکے۔

ضرور پڑھیں: کیمبرج اسکول کی کتاب میں شامل مواد پرنثار کھوڑو کو تشویش

سرکاری اہلکار کے مطابق سیاسی مذہبی پارٹیوں نے محکمہ تعلیم پر اردو،اسلامیات اور سماجی علوم کے نصابی کتابوں میں تبدیلی نہ کرنے کے لئے دبائو ڈالا، یہ کہنا مشکل ہے کہ اب ان مضامین کے نصاب میں کب بہتری اور تبدیلی کی جاسکے گی۔

محکمہ تعلیم کے مطابق پانچویں کلاس تک نصابی کتابوں کا جائزہ آخری مراحل میں شامل تھا اور کچھ کتابیں چھپائی کے لئے بھی بھیجنے کی تیاری تھی، نظرثانی اور بہتری کے بعدتیار ہونے والے نصابی کتاب اپریل سے نئے تعلیمی سال میں تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے تھے۔

صوبے میں تعلیمی بہتری کے لئے نصابی کتابوں کا جائزہ لینے اور نصاب تبدیل کرنے کا منصوبہ سال 2006-2007 میں شروع کیا گیا تھا، نویں سےبارہویں جماعت تک اسلامیات کے نصابی کتابوں کوجدید دور کے تقاضوں کے مطابق یار کیا جا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں آن لائن درسی کتابوں کی ویب سائٹ لانچ کردی گئی

سرکاری اہلکار کے مطابق نصاب میں تبدیلی اور جائزے والے منصوبے کی منظوری محکمہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سے بھی لی گئی تھی،نصابی کتابوں میں ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کے نصاب کے معیار کے مطابق تبدیلیاں اور بہتریاں لائی جارہی تھیں۔

اعلیٰ عہدے پر فائز محکمہ تعلیم کے سرکاری اہلکار کے مطابق اٹھارہویں آئینی ترمیم پرمکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایلیمنٹری سیکنڈری ایجوکیشن اور اس کے نصاب کی تیاری کامعاملہ مرکزیت سے محروم ہے ۔

سرکاری اہلکار کے مطابق معیاری نصاب اور معیاری تعلیم وہ ہوتی ہے جو بچے کو قومی جذبے،قومی ہم آہنگی،اتحاد کو آگے بڑھانے اور سالمیت کا درس دیتی ہو، معیاری تعلیم تحقیق پر مبنی ہوتی ہے، جس میں مسائل پر تنقید اور ان کا حل پیش کیا جاتا ہے، معیاری تعلیم اخلاق، جنسی تفریق،نسلی تعصب سے پاک، ثقافت و تہذیب سے پیاراور دوسروں کا احترام کرنے کا درس دیتی ہے۔

محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا کے مطابق نصابی کتابوں کے جائزے اور تبدیلیوں کاچار مراحل پر مشتمل منصوبہ 2018 تک مکمل ہو جائیگا، منصوبے کا پہلامرحلااپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے ، جس میں انگریزی،جنرل سائنس اور ریاضی کے پرائمری سطح کے نصابی کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

دوسرے مرحلے میں انگریزی، ریاضی اور جنرل سائنس کی کتابوں کا جائزہ اور تبدیلی مکمل کرکے تیسرے اور چوتھے مرحلے میں فرکس،کیمسٹری، بائیولاجی،انگریزی، ریاضی اور جنرل سائنس کے تمام نصابی کتابوں میں بہتری لائی جائیگی۔

سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی جانب سے دبائو کے بعدنصابی کتابوں کے موخر کیے گئے جائزے سمیت دیگر معاملات پر موقف دینے کے لیے محکمہ ایلیمنٹری سیکنڈری ایجوکیشن کے صوبائی وزیر محمد عاطف خان موجود نہیں تھے۔


یہ رپورٹ 13 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں