واشنگٹن: نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے 8 نومبرکے انتخابات پاپولر ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اس لیے اگر غیرقانونی طور پر ڈالے گئے لاکھوں افراد کے ووٹ خارج بھی کردیئے جائیں تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے واضح اکثریت سے الیکٹورل کالج جیتنے کے ساتھ ساتھ پاپولر ووٹ بھی جیتا اس لیے اگر 'غیرقانونی لاکھوں ووٹوں' کو نکال بھی دیا جائے انہیں فرق نہں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں سے عام ووٹ حاصل کرنا زیادہ آسان تھا، کیوں کہ اس کے لیے انہیں صرف 3 سے 4 ریاستوں میں انتخابی مہم چلانا پڑتی۔

نو منتخب امریکی صدر کا ایک اور ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ ریاست ورجینیا، ریاست نیو ہمپشائر اور ریاست کیلیفورنیا میں ووٹوں کا فراڈ ہوا مگر میڈیا تعصبانہ رویے کے باعث اس معاملے پر رپورٹنگ نہیں کر رہا۔

یاد رہے کہ ریاست ورجینیا، نیو ہمپشائر اور ریاست کیلیفورنیا میں ہیلری کلنٹن نے کامیابی حاصل کی تھی۔

ریاست وسکاسن کے الیکشن بورڈ کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی اجازت دیے جانے کے بعدگزشتہ روز ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم ٹیم نے اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست وسکاسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں حصہ لے گی۔

ریاست وسکاسن کے الیکشن بورڈ نے گرین پارٹی کی صدارتی امیدوار جل اسٹین کی درخواست پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی منظوری دی تھی، ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا۔

امریکی صدر کا انتخاب عام ووٹوں کے بجائے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کے ذریعہ ہوا تھا، ٹرمپ نے الیکٹورل کالج کی مطلوبہ تعداد 270 سے زائد ووٹ حاصل کرکے وائٹ ہاؤس کے نئے مکین کا اعزاز حاصل کیا تھا، الیکٹورل کالج کے نتائج کا حتمی اعلان 19 دسمبر تک ہونے کا امکان ہے، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نئے سال میں 20 جنوری 2017 کو صدارتی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

ہہ بھی پڑھیں: امریکا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تیاری

امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ہی خود ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کو شکست دینے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کا امکان ہے، جب کہ مختلف مطالعاتی سرویز میں انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر اہم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے تھے۔

انتخابات سے قبل ظاہر کیے گئے ٹرمپ کے خدشے کو حقیقی جامہ پہنانے کے لیے گرین پارٹی کی امیدوارجل اسٹین نے انتخابات کے دوران ممکنہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے ریاستی الیکشن بورڈ کو درخواست دی۔

مزید پڑھیں: کیا امریکی انتخابات میں بھی دھاندلی ہوسکتی ہے؟

دوٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست دینے والی جل اسٹین نے صرف ایک فیصدعوامی ووٹ حاصل کیے تھے ، ان کا مؤقف ہے کہ دوران انتخاب امریکی کمپیوٹر ماہرین کی جانب سے سسٹم کے ہیک ہونے کے اشارے دئیے گئے تھے، اس لیے وہ دوبارہ گنتی کے ذریعے امریکی انتخابی نظام کی سلامتی چاہتی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹین کی جانب سےریاست وسکاسن، مشی گن اور پنسلوانیا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق چندے مہم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ جل اسٹین اپنی بری شکست اور پست حوصلوں سے ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔

دوسری جانب صدر براک اوباما کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے کوئی ثبوت نہیں ملے ، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ تسلی کا واحد راستہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں