مودی-غنی گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرنے کیلئے چند تجاویز

اپ ڈیٹ 13 دسمبر 2016
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہندوستانی وزیرِ اعظم نے افغان صدر اشرف غنی کا بھرپور ساتھ دیا، جنہیں بظاہر اس کانفرنس کا فائدہ پہنچنا تھا۔ — اے ایف پی۔
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں ہندوستانی وزیرِ اعظم نے افغان صدر اشرف غنی کا بھرپور ساتھ دیا، جنہیں بظاہر اس کانفرنس کا فائدہ پہنچنا تھا۔ — اے ایف پی۔

امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے دوران پاکستان کے مشیرِ خارجہ امور سرتاج عزیز کی ہندوستانی میزبانوں اور افغان صدر کے ہاتھوں ہتک دیکھنا نہایت افسوسناک تھا۔

سرتاج عزیز پاکستان کے عمر رسیدہ سفارتکار ہیں، امرتسر میں ان سے جو سلوک کیا گیا وہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی سخت گیر اور وحشیانہ فطرت کا عکاس ہے۔

کانفرنس کی میزبانی باری باری رکن ممالک کے حصے میں آتی ہے۔ اس دفعہ جب یہ ہندوستان کے حصے میں آئی تو اس نے اسے پاکستان کو 'دہشتگرد' قرار دے کر اسے 'تنہا' کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔

ہندوستانی وزیرِ اعظم نے افغان صدر اشرف غنی کا بھرپور ساتھ دیا، جنہیں بظاہر اس کانفرنس کا فائدہ پہنچنا تھا۔ اشرف غنی نے پاکستان پر افغانستان میں طالبان دراندازی کو ہوا دینے کے جارحانہ الزامات لگائے؛ پاکستان وفد کے سربراہ کو کانفرنس فلور سے تفتیشی لہجے میں مخاطب کیا، اور افغانستان کے لیے 500 ملین ڈالر کی پاکستانی اقتصادی امداد کو ٹھکرا دیا۔ اس سے بھی برا یہ کہ ہندوستان نے پاکستانی رہنما کو میڈیا سے بات کرنے، یہاں تک کہ اپنے ہوٹل سے نکلنے تک سے منع کر دیا۔

پراسرار بات تو یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نے آخر کیوں اس پہلے سے متوقع بے عزتی کا سامنا کرنے کے لیے اپنے سینیئر ترین سفارتکار کو ہندوستان بھیجا؟

ہندوستان اگر اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کیا تھا تو پاکستان کو بھی امرتسر کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے دوست ممالک چین اور ترکی کو بائیکاٹ پر قائل کرنا چاہیے تھا۔ کم از کم اتنا تو ضرور کیا جاتا کہ کسی نچلی سطح کے سفارتکار کو بھیجا جاتا۔

کچھ دہائیوں قبل سرد جنگ میں غیر جانبدار رہنے والے ممالک (نان الائینڈ موومنٹ) کی سربراہی کانفرنس میں جب میزبان ملک کے صدر نے حال ہی میں طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بارے میں ایک تنقیدی تبصرہ کیا، تو مصر کے وزیرِ خارجہ نے انہیں ٹوکا۔ امرتسر میں پاکستان کے پاس بھی یہ موقع تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر مودی اور غنی کو ٹوکا جاتا کہ وہ کانفرنس کے ایجنڈے اور مقصد سے ہٹ رہے ہیں۔ اگر پاکستانی وفد کے احتجاج کو نظرانداز کیا جاتا، تو انہیں کانفرنس سے واک آؤٹ کر دینا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان ہندوستان اور افغانستان پر جوابی الزامات بھی داغ سکتا تھا۔

پر اس کے بجائے سرتاج عزیز صاحب مودی کے حملوں اور غنی کی تفتیش کے دوران تحمل سے بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بعد میں افغان صدر سے ملاقات بھی کی۔

سرتاج عزیز صاحب کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنا قابلِ تعریف ہے، مگر جو بات دیکھنی چاہیے وہ یہ کہ ہندوستانی اور افغانی الزامات ان کی ذات پر نہیں بلکہ پاکستان پر تھے، لہٰذا انہیں برداشت نہیں کرنا چاہیے تھا۔ سفارتی آداب کے مطابق اس طرح کے ہتک آمیز رویے پر سخت ردِ عمل دیا جاتا ہے۔ مگر یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ آیا دونوں حکومتوں سے باقاعدہ احتجاج کیا گیا ہے یا نہیں۔

ہتک آمیز رویے کے خلاف سخت ردِعمل دینے میں ناکامی کا مطلب نہ صرف یہ ہے کہ ہمیں قومی عزت کی کوئی فکر نہیں، بلکہ اس کا مطلب پاکستان کے خلاف لگائے گئے سنگین الزامات کو قبول کر لینا بھی ہے۔

بدقسمتی سے یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں جب پاکستانی سفارتکار حالات کا پیشگی اندازہ لگانے اور اپنے خلاف بچھائے گئے سیاسی جال کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہوں۔

پاکستان کو ہندوستان کی جانب سے سارک سربراہی کانفرنس ناکام بنانے کی کوششوں کا پیشگی اندازہ لگاتے ہوئے اسے پہلے ہی ملتوی کر دینا چاہیے تھا، مگر اس کے بجائے اسلام آباد کھوکھلی امید پر انتظار کرتا رہا کہ مودی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئیں گے۔

نتیجتاً ہمارے ہاتھ نہ صرف ہندوستان کی عدم شرکت کی بے عزتی آئی، بلکہ دیگر جنوبی ایشیائی ریاستوں نے بھی ہندوستانی دباؤ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمارے ہاں آنے سے معذرت کر لی۔

بین الاقوامی برادری، خصوصاً ہندوستان کی جانب پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی اس کی اعلیٰ سطحی سفارتکاری کا ایک معمول کا خاصہ بن چکی ہے، جو بار بار ہندوستان سے مذاکرات کے مطالبے کرتی رہتی ہے، یہاں تک کہ جولائی میں ہندوستان کی جانب سے کشمیر میں شدید ترین ظلم و جبر کے بعد بھی، جو تاحال جاری ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان نے افغانستان، جس کے لاکھوں پناہ گزین ہمارے ملک میں موجود ہیں، جس کے تجارتی قافلوں بشمول ہندوستان کی جانب برآمدات کو ہم اپنی زمین سے گزرنے دیتے ہیں، جس کی خانہ جنگیوں سے ہمارے ملک میں دہشتگردی آئی ہے، اور جس کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ہندوستانی شراکت سے ٹی ٹی پی کی دہشتگردی اور بلوچ دراندازی کو ہوا دینے میں مصروف ہیں مگر جس کے باوجود پاکستان نے اس کے امن و سلامتی اور مفاہمت کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں، کی جانب سے بار بار لگائے جانے والے سنگین الزامات کو بھی بغیر شکایت کے برداشت کیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سزا کے ساتھ ساتھ صبر کا مقصد کیا ہے؟ جواب کئی ہوسکتے ہیں۔

اسلام آباد کو شاید یہ امید ہو کہ ایک دن ہندوستان اور افغانستان عقلیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصفیے اور مذاکرات کی پاکستانی کوششوں کا جواب دیں گے۔ مجھے نہیں لگتا۔

امید کی جا سکتی ہے کہ مسائل کے حل کے لیے ایک متوازن مؤقف کابل کے سرپرست اور ہندوستان کے نئے اتحادی امریکا کی پاکستان کے لیے حمایت کو جنم دے گا۔ مگر ہندوستان اور افغانستان کے پاکستان کے خلاف الزامات نے اگر واشنگٹن میں جنم نہیں لیا، تب بھی وہاں ان کی بازگشت ضرور سنائی دے رہی ہے۔

شاید یہ خوف ہو کہ سخت ردِ عمل امریکی پابندیوں کو دعوت دے سکتا ہے۔ مگر یہ پابندیاں پاکستان پر صرف تب لگیں گی جب امریکا کو یہ محسوس ہو کہ پابندیوں سے حاصل ہونے والے فائدہ ان کی قیمت سے کہیں زیادہ ہوگا۔

شاید یہ خواہش ہو کہ ہندوستان کو پاکستان کے خلاف سرحد پار سے مزید جارحیت کرنے پر نہ اکسایا جائے۔ پھر وہی بات کہ جارحیت سے صرف تب بچا جائے گا جب ہندوستان (اور دیگر طاقتیں) اس بات پر قائل ہوں کہ اس کی قیمت اس کے فائدے سے زیادہ ہوگی۔

یا اس کے علاوہ کچھ نامعلوم وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جن کی بناء پر ہمارے رہنما بلا چوں و چراں مودی اور غنی کے اشتعال انگیز بیانات و الزامات برداشت کیے جاتے ہیں۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کمزوری جارحیت کو دعوت دے گی۔ سہمے رہنے سے پاکستان کا استحصال اور اس پر دباؤ مزید بڑھے گا۔ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک زیادہ مضبوط پوزیشن اپنانی پڑے گی۔

امرتسر کے بعد پاکستان کو پاکستان میں موجود ہندوستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو سخت محدود کر دینا چاہیے؛ بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو "دہشتگرد" تنظیمیں قرار دینا چاہیے؛ کشمیری حریت کانفرنس کو ہندوستانی جارحیت کے شکار کشمیریوں کی انسانی بنیادوں پر امداد کے لیے مالی امداد فراہم کرنی چاہیے۔

اس کے علاوہ پاکستان کو باقاعدہ طور پر سلامتی کونسل میں جانا چاہیے اور اس سے کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات و مذمت، ہندوستان کی جانب سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی روک تھام، اور جموں و کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کروانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

افغانستان کے خلاف بھی ہم کئی اقدامات کر سکتے ہیں۔ پاکستان افغان مہاجرین کی ملک بدری میں تیزی کرسکتا ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے ہندوستان جانے والے سامان کو بتدریج روک سکتا ہے، اور سرحد کی خلاف ورزی روکنے کے لیے سرحد پر باڑ لگا سکتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے لیے افغانستان اور ہندوستان کی حمایت، اور اس کے دولتِ اسلامیہ کے ساتھ تعلقات کو بین الاقوامی برادری اور میڈیا کے سامنے زور و شور سے اٹھانا چاہیے۔

اگر افغانستان میں نیٹو کی افواج ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو معینہ مدت تک ختم نہیں کرتیں، تو پاکستان کو براہِ راست ایکشن پر غور کرنا چاہیے۔

مغربی سرحد پر خطرے کا خاتمہ کرنے سے ہم مشرق میں موجود زیادہ بڑے خطرے سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں گے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Sharminda Dec 13, 2016 10:12pm
Pakistan ka conference main jaana drust, laikin defensive hona ghalat thaa. Sartaj Aziz say is say ziada expect karna mushkil thaa. Bhutto jaisa foreign minister hota tiu moodi aur ghani ko un ki aiqat yaad dila daita.
nadeem Dec 14, 2016 06:19am
I am none political person but here is my prediction today this Indo Afghan friend won't last... Still India is very poor country and Afghanistan is looking at other countries...Once India will stop funding or country who is funding india to fund Afghanistan stops funding India Afghanistan will be no longer.....